احمد صغیر صدیقی(کراچی)
اُدھر
سوچ میں ایک پیمان اس کا
دلِ نارسیدہ میں ارمان اس کا
دیے سے جلاتا
بدن جگمگاتا
نفس در نفس لالہ و گل کھلاتا
اِدھر
تاک میں
اک اُدھڑتی ہوئی رُت کا طوفان کوئی
بکھرنے کا ،مٹنے کااِمکان کوئی
نشانے لگاتا
اُمیدیں اُڑاتا
گزرتا ہوا وقت چہرے پہ گہری لکیریں بناتا!