جعفر ساہنی(کولکاتا)
ہے آج بھی تازہ مِری نظروں میں لطافت
گزرے ہوئے اوقات کے معصوم وفا کی
رکھتی ہے مِری سوچ سلیقے سے سجا کر
پھولوں کے لبادے میں شگفتہ سی گواہی
رنگین کسی شام کا شاداب اشارہ
محفوظ مِری یاد میں مل جاتا ہے اکثر
راتوں کو تبسم کی سمیٹے ہوئے کرنیں
سینے سے لگاتا ہے کوئی نیند میں آکر
لرزش ہے مِرے پاؤں میں اور ہاتھ میں رعشہ
ایسے میں بھی ارمان جواں خواب ہی مانگے
نازوں کا پلا شوق نہیں بدلا ذرا بھی
’’رہنے دو ابھی ساغر و مینا مِرے آگے‘‘
خوشبو میں محبت کی بسی رِیت نئی ہے
وعدے کے وسیلے سے خوشی جیت گئی ہے