اس بار ایک ذاتی گزارش
مغربی دنیا میں مقیم تمام ادیبوں کے بارے میں عام طورپر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ بڑے امیر کبیر لوگ ہوتے ہیں۔اس تاثر کو مزید تقویت ہمارے ایسے شعرائے کرام اور ’’دانشور‘‘حضرات نے پہنچائی جو بین الاقوامی شاعر اور ادیب کہلانے کے لیے نہ صرف اپنے خرچے پر برصغیر پاک و ہندتک جاتے ہیں بلکہ اپنے اعزاز میں ہونے والی تقریبات کا خرچ بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ طریق سے ادا کرتے ہیں۔اسی طرح مغربی دنیا سے اردو کے جو رسالے نکل رہے ہیں ان میں سے بیشتر ممالک کے رسائل سرکاری گرانٹس پر چل رہے ہیں۔یہ اچھی بات ہے کہ جو ممالک اردو رسائل کے لیے امداد دیتے ہیں ان سے اردو کے فروغ کا کچھ نہ کچھ کام ہوتا رہتا ہے۔تاہم میرا معاملہ ان دونوں حوالوں سے صفر ہے۔
میں یہاں بہت ہی معمولی سا مزدور ہوں ،محنت مزدوری کے ساتھ جتنا وقت اور توفیق میسر ہو کچھ نہ کچھ ادبی کام کر لیتا ہوں۔میری تنخواہ اتنی کم ہے کہ مجھے مکان کے کرایہ کے لیے حکومت سے جزوی امداد لینا پڑتی ہے۔جرمنی میں اردو کی کسی تنظیم کو کوئی گرانٹ ملتی ہے یا نہیں مجھے اس کا علم نہیں ہے۔میں نے ذاتی طور پر نہ کبھی اس کے لیے کو شش کی ہے اور نہ ہی اس جھنجھٹ میں پڑنا چاہتا ہوں۔یوں بھی انجمن سازی کا کام میرے لیے کبھی بھی اچھا نہیں رہا۔مزاج اس کام سے ہم آہنگ نہیں ہونے دیتا۔
جدید ادب کے لیے شروع میں ایک دوست اپنے ادارہ کا اشتہار دیا کرتے تھے،اس سے کچھ سپورٹ مل جاتی تھی۔لیکن مغربی دنیا اور بالخصوص جرمنی کے جعلی شاعروں اور چور لکھنے والوں کے خلاف مہم کے نتیجہ میں وہ اشتہار بھی بند کرا دیا گیا۔رسالہ ایک طرح سے میری پاکٹ منی کے بل پر چل رہا ہے۔ اب تک تیرہ شمارے شائع ہوئے ہیں تو مجموعی طور پر تیرہ دوستوں نے بھی اتنا تعاون نہیں کیا کہ صرف ڈاک خرچ کی رقم ہی نکل آتی۔
اس ساری رودادکا مقصد نہ تو اپنے مسائل کا رونا رو کر چندہ جمع کرنا ہے اور نہ ہی دوستوں کو اخلاقی طور پر اس طرف مائل کرنا ہے ۔یہ ساری روداد اس لیے بیان کرنا پڑی ہے کہ بعض ادبی رسائل جو میرے نام بھیجے جاتے ہیں ایک عرصہ کے بعد ان کا سالانہ چندہ کابقایا کا،بل بنا کر بھیج دیا جاتا ہے اور مجھ سے ادائیگی کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ انڈو پاک کے ادبی رسائل کسمپرسی کی موجودہ حالت میں مالی تعاون کے مستحق ہیں تاہم میرا مسئلہ یہ ہے کہ یا تو جدید ادب کو بند کردوں اور ادبی رسائل سے مالی تعاون کر لوں یا پھر جو کچھ بچت کر سکتا ہوں اس سے جدید ادب نکالتا رہوں۔سو جن ادبی رسائل کے مدیران میرے ذمہ سالانہ چندہ کے بقایا جات بھیجتے ہیں،ان سے ادب کے ساتھ گزارش کرتا ہوں کہ میرے نام رسائل کی ترسیل بند فرمادیں ۔عدم ادائیگی کے باعث مجھے شدید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امید ہے ایسے مدیران ادبی رسائل میری مجبوریوں کے باعث مجھ سے درگزر سے کام لیں گے۔ ۔ ۔۔۔! حیدر قریشی