اشہر ہاشمی(دہلی)
ہوا کا کام ہے چلنا
ہوا چلتی ہی رہتی ہے
ہوا بالکل نہیں تھکتی
ہوا بالکل نہیں تھمتی
ہوا کی چال میں تبدیلی ہوتی ہے
کبھی آندھی
کبھی طوفاں
یہی ولوں کو بھی شانوں پہ لادے رقص کرتی ہے
کبھی بارش کی شدت تیز کرتی ہے
یہی باد نسیم صبح بھی لہلاتی کے اور باد صرصر بھی
مگر چلتی ہی رہتی ہے
کبھی تھکتی نہیں ہے یہ
ہوا کا کام ہے چلنا ، مچلنا
ہوا شکوہ نہیں کرتی
ہوا تو چلتی رہتی ہے
ہوا بالکل نہیں تھمتی
ہوا بالک نہیں تھکتی
ہوا کی ہر فضیلت اور فطرت
مجھ پہ ظاہر ہے
ہوا کا میں بھی شیدائی ہوں
اس کے موڈ سے واقف ،ادا سے آشنا ہوں میں
تمہیں بھی علم ہوگا کہ
ہوا ہی فروری کے وسط میں
پھاگن کے حیلے سے بدن کو گدگداتی ہے
اسے احساس دیتی ہے
نئی فرحت کا
لیکن تم ہوا کی اس فضیلت سے
ابھی تک جانے کیوں انکار کرتی ہو
مگر مجھ سے ہواکی طرح
چلتے رہنے اور شکوہ نہ کرنے کے لئے
اصرار کرتی ہو!