نیّر جہاں(امریکہ)
میں سوچتی ہوں ،تمہیں بتا دوں
جو اوڑھنی تم نے مجھ کو دی تھی
وہ پہلی بارش بھی سہہ نہ پائی
سو کچے رنگوں کے درد انگیز
نقش دل پر بنے ہوئے ہیں
وہ تتلیاں جو محبتوں کی علامتیں تھیں
وہ جن کو تم نے پکڑ کے مجھ کو تھما دیا تھا
ابھی تلک انگلیوں پہ میری
پَروں کی رنگت کا دُکھ لگا ہے
کبھی دبے پاؤں پیچھے سے آکے
آنکھوں پہ ہاتھ رکھنا
کبھی اکیلے میں’’ہاؤ‘‘ کہہ کر مجھے ڈرانا
ابھی بھی دیوارِ دل پہ یادوں کے
زخم سارے سجے ہوئے ہیں
میں سوچتی ہوں کہ پھر بھی تم کو بتا ہی ڈالوں
گلاب کی خوشبوؤں سے مہکی،وہ ساری باتیں
وہ جگنوؤں کی طرح چمکتی ،تمام راتیں
صبا کے جھنکوں سے ملتا جلتا ،لطیف لہجہ
تمہارا لہجہ
ہمارا لہجہ
جو موسمی تھا
خمار سب کا اتر چکا ہے
میں سوچتی ہوں ،تمہیں بتا دوں
سو تم کو میپل کے زرد پتّے پہ لکھ رہی ہوں
کہ دل کا موسم بدل چکا ہوں!!