مجید امجد
اپنی آنکھ پہ پٹی باندھ کے دیکھو،
اپنی اوٹ سے اپنے آپ کو دیکھو،
اندھیارے میں سوچو،
کس کے ٹھنڈے،مشفق،حکمت والے ہاتھ تھے،
جن میں؍ٹھنڈی،تیز،کٹیلی،دھار تھی دُکھ کی،
چِرتی جلد سے گرتی،انگارہ سی بوندیں،
یہ اک ،سانس تو شاید۔۔۔
اس اک رُکتی رستی سانس کے بعد تو شاید
میلی گیلی کافوری مٹی کا بچھونا۔۔۔
اسی بچھونے سے میں اُٹھا،
سدا جئیں وہ ٹھنڈے ہاتھ،جنھوں نے پٹی باندھی،
اب آنکھوں پر پٹی باندھ کے دیکھا،
یہ دنیا کتنی اچھی ہے،
تنہا بیٹھ کے سوچا،
اس اک اِتنی اچھی دنیا میں بھی
کون اِدھر کو میری جانب دیکھے گا
جب تک میری آنکھوں پر پٹّی ہے!