ناصر ملک(لیہ)
بستی والوں نے اِک دولت والا ایسا دیکھا تھا
سورج بن کے جلتا رہتا ، کرنیں بانٹا کرتا تھا
گھر سے اُٹھتے شعلے دیکھ کے رونا کیسا لگتا ہے
شام ڈھلی تو اُس نے مجھ سے کتنے لاڈ سے پوچھا تھا
مفلس زادوں کو لقمے بھی خون کے بدلے ملتے ہیں
ایسا حاکم کیوں دھرتی نے اپنے رَب سے مانگا تھا
تیری زُلفیں ڈھونڈ رہی تھیں چلتی سانس کی گرمی کو
لیکن میری سانس رُکی تھی ، میرا دِل برفایا تھا
اُس شب جلتے بجھتے جگنو اُس کو دیکھنے آئے تھے
وہ بھی سورج اَوڑھ کے اپنے گھر سے تنہا نکلا تھا
بانجھ کتابوں کی قبریں تو شہر میں ہر سُو پھیلی تھیں
لیکن حرف کو ہم نے گونگے کھیت میں اُگتے دیکھا تھا
کاغذ چننے والے ننھے ہاتھ میں چھالا دیکھا تو
میرے پہلو میں دل ناصر کتنی زور سے دھڑکا تھا