حنیف نجمی(دھمتڑی،چھتیس گڑھ)
خوشبوؤں کا اک ذخیرہ گو مِرے قبضے میں ہے
کیا کروں پاگل ہوا اک شخص کے کہنے میں ہے
تجھ میں پوشیدہ ہیں جاناں کتنی دنیاؤں کے راز
حسن کتنی کہکشاؤں کا ترے چہرے میں ہے
اس سے پہلے تو کیا بندوں کی عظمت پر سوال
اب تکلف کچھ خدا کو بھی خدا کہنے میں ہے
مجھ سے وہ لاکھوں ہی نوری سال کی دوری پہ ہے
اور وہی پیوست بھی میرے رگ و ریشے میں ہے
آدمی تو رنگ ابلیسی کا مظہر ہے تمام
روح تیری اے خدا کس خاک کے پتلے میں ہے
سارے عالم میں ہے چرچا بے حجابی کا تری
پھر بھی کچھ لوگوں کو غم ہے تو ابھی پردے میں ہے
گفتگو اس کی ہے نجمی اک سکوتِ بیکراں
اک بلا کا شور لیکن اس کے چپ رہنے میں ہے