ناصر ملک(لیہ)
پھول تاروں سے سجا ماہِ سخا کا نقشِ پا
اِک جہانِ نور ہے خیر الوریٰؐ کا نقشِ پا
اُنؐ کے قدموں سے ملا ہے اِک صراطِ مستقیم
ورنہ کس نے دیکھ رکھا تھا خدا کا نقشِ پا
اِس جہاں سے اُس نگر کا راستہ ہے کہکشاں
چوم لے گر اُمّتی نورالہدیٰ ؐ کا نقشِ پا
ایک انگلی کے اشارے میں چھپا تھا کیساراز
ماہِ روشن آج تک ہے مصطفی ؐ کا نقشِ پا
کاروانِ مرتضیٰ پھر چل پڑا تھا شان سے
پیش روؐ نے جب دکھایا کربلا کا نقشِ پا
زادِ راہ میں آتشِ تر دامنی ہے منعمو!
اور آنکھوں میں امام الانبیاؐ کا نقشِ پا
ایک دُنیا کی جمی تھی ماہِ تاباں پر نظر
ماہِ تاباں چھو رہا تھا مجتبیٰ کا نقشِ پا
آسماں بھی جھک گیا تھا دیکھنے کو اُس گھڑی
کہکشاں کو میں نے لکھا جب حِرا کا نقشِ پا
قوتِ معجز نمائی پہ دل و جاں ہیں نثار
لامکاں کا راستہ بھی ہے وفا کا نقشِ پا