ارشاد قمر
جو سر نہ غیر کے آگے جھکے گا
وہی سرمایہء مقتل بنے گا
ابھی کچھ دیر کی ہے سر گرانی
مگر اس درد کا سورج ڈھلے گا
زمانہ کیا سزا دینے سے پہلے
کوئی الزام اپنے سر بھی لے گا
ستارہ آسماں سے ٹوٹ کر بھی
ستاروں میں کہیں شامل رہے گا
لہو سے آبیاری جس کی ہو گی
وہی گل کھل کے اک شعلہ بنے گا