رفیق شاہین(علی گڑھ)
نئے خوابوں میں بھی منظر پرانے ڈھونڈتا ہوں
جو مجھ سے چھِن گئے ہیں وہ زمانے ڈھونڈتا ہوں
میں شہرِ سنگ کے نا آشنا بے حس بتوں میں
دوانہ ہوں،محبت کے فسانے ڈھونڈتا ہوں
کبھی آہوں،کراہوں میں،کبھی اشکوں کے گھر میں
میں لُٹ پٹ کر بھی چاہت کے خزانے ڈھونڈتا ہوں
کہوں جب قصۂ غم میں تو ہوں وہ بھی فسردہ
یونہی تو کب سے اپنے سے دوانے ڈھونڈتا ہوں
ذرا میں بھی تو دیکھوں کوں ہوں،کیسی ہے صورت
یونہی تو کب سے میں آئینہ خانے ڈھونڈتا ہوں
جہاں نفرت کے شعلوں میں گھرا ہے اور میں پاگل
جہنم میں بھی جنت کے ٹھکانے ڈھونڈتا ہوں
ہوئی شاہینؔ جس در پہ مِری تذلیل پھر بھی
اُسی در پہ میں جانے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں