رئیس الدین رئیس
جھکا کے دیکھ لیں اپنی بھی ہم جبیں اک روز
جو اپنی سطح سے اُٹھ جائے یہ زمیں اک روز
جو اپنے آپ کو شہرِ گماں میں ڈھونڈتے ہیں
وہ اپنے آپ کو مل جائیں گے کہیں اک روز
سوالِ وصل پہ مجبور خواہشیں سُن لیں
انہیں جواب ملے گا، ابھی نہیں اک روز
میں سنگ و خشت ہوا ہوں جسے بنانے میں
وہی مکان گرائیں گے یہ مکیں اک روز
ابھی تو وہم کے سائے میں ہے پناہ گزیں
کبھی تو دھوپ میں آئے گا یہ یقیں اک روز
ہر اک نظر پہ ہے طاری فسونِ بے خبری
اب اپنے آپ کو ڈھونڈیں گے خود ہمیں اک روز
ابھی رئیسؔ توجہ نہیں ہے میری طرف
مجھے تلاش کریں گے یہ ناقدیں اک روز