رئیس الدین رئیس(علی گڑھ)
فقط گمان نہیں تھا، ضرور ہو جاتا
اگر میں بڑھتا تو دریا عبور ہوجاتا
ہمارے حرف مشابہ تھے چاند سورج سے
قلم اُٹھاتے اگر ہم تو نور ہوجاتا
ہمارے شعر حقیقت کے پاس تھے کتنے
ورق اُلٹتے اگر تم ظہور ہو جاتا
مِرے خیال میں بہتر تھا آگہی سے جنوں
جو اپنے آپ سے ملتا غرور ہوجاتا
تمام عمر ہی شیشہ گری میں گزری ہے
میں سنگ زاد نہیں تھا کہ چُور ہو جاتا
وہ وصل و ہجر کے معنی سے آشنا تھا رئیسؔ
میں اُس کے پاس جو جاتا تو دور ہو جاتا