ارشد کمال (دہلی)
اگر چراغ کی لَو بے لگام ہو جائے
ضیاء کے نام پہ ظلمت کا کام ہو جائے
وفورِ شوق سے رشتہ جو کچھ توانا ہو
سراب و آب کا قصہ تمام ہو جائے
جسے بھی دیکھو، زمانے سے ہی مخاطب ہے
کبھی تو خود سے کوئی ہم کلام ہو جائے
عجیب حبس ہے یارو، چلو کچھ ایسا کریں
کہ شہرِ وقت سے باہر قیام ہو جائے
شبِ سیہ کو ہے منظور سب ، بجز اس کے
کہ میرے گھر میں ضیاء خوش خرام ہو جائے
ضمیر زندہ ہے جب ، تو زباں بھی زندہ رہے
کرو کچھ ایسا کہ یہ فکر عام ہو جائے
ہمیں ہماری خبر بھی ملا کرے ارشدؔ!
کچھ اپنی زیست کا ایسا نظام ہو جائے