فیصل عظیم
مجھ پہ ڈالو نہ ایسے جھکا کر نظر
میرے بس میں نہیں میرا دل اس قدر
سب نے یوں مل کے گھیرا خدا کی پنہ
رنگٗ عارضٗ لب و زلفٗ نظریںٗ کمر
اور کس زاویے سے لگاؤ گے چوٹ
اب ہٹا بھی چکو اپنی ترچھی نظر
تیری آواز جادو سے کم تو نہیں
کیوں لٹاتا ہے حرفوں کا مجھ پہ ہنر
یہ ہواؤں میں کس نے اُچھالا مجھے
یک بیک کیسے اُگنے لگے بال و پر
اب مرے واسطے کچھ نئے جال بُن
میں چلا تیرا دامِ اثر توڑ کر
مسکراہٹ ہی کافی ہے میرے لئے
کیوں سجاتے ہو ماتھے پہ شمس و قمر
جسم و جاں میں یہ مستی تو پہلے نہ تھی
ہو نہ ہوٗ تیری باتوں کا ہے یہ اثر
اس قدر بھی سجاوٹ ضروری نہیں
جانتا ہوں میں سب تیرے عیب و ہنر
کیا سماعت بھی ہے اک ادا حسن کی
مجھ کو تیری خموشی سے لگتا ہے ڈر