فیصل عظیم(امریکہ)
کیا ڈریں خوابوں سے یا خوابوں کی تعبیروں سے ہم
کھیلتے پھرتے ہیں خود اپنی ہی تقدیروں سے ہم
مدتوں سے پاؤں میں ہیں بیڑیاں سی بے شمار
کیا رکیں گے آپ کی دو چار زنجیروں سے ہم
فلسفوں کی ابتدا اور انتہا جب ایک ہے
کیوں نہ رنگِ آگہی چھلکائیں تحریروں سے ہم
ڈھال کب کی پھینک دی ہے زندگی کی جنگ میں
عمر کتنی ہےٗ یہ گن لیں گے کبھی تیروں سے ہم
کیوں ہمیں اس بت کدے میں لا کے حیراں کر دیا
پھیر لیں کیسے نظر رنگین تصویروں سے ہم
وصل کی باتوں پہ اک رانجھے کا آتا ہے خیال
عذر آخر کیا کریں اس شہر کی ہیروں سے ہم
حسن تیرا دلفریبی کی حدوں پر ہےٗ مگر
تو زمیں کی قید میں ہے اور پنہ گیروں سے ہم