فراغ روہوی
کچھ بھی انجام ہو، آغاز کیے دیتے ہیں
آ تجھے اپنا ہم آواز کیے دیتے ہیں
موسموں کو نظر انداز کیے دیتے ہیں
آ بلند اور بھی پرواز کیے دیتے ہیں
کچھ تو پہلے سے تھا رگ رگ میں شجاعت کا سرور
کچھ ہمیں آپ بھی جانباز کیے دیتے ہیں
حد سے آگے جو پرندے نہیں اُڑنے والے
حادثے ان کو بھی شہباز کیے دیتے ہیں
شبِ ظلمت نہ ہو غمگیں کہ جلا کر خود کو
نور سے تجھ کو سرافراز کیے دیتے ہیں
دشت و صحرا،یہ سمندر،یہ جزیرے یہ پہاڑ
منکشف ہم پہ کئی راز کیے دیتے ہیں
شہرِ جاں پر کئی برسوں سے مسلط ہے جمود
چھیڑ کر دل کو چلو ساز کیے دیتے ہیں
ہم کہ زندہ ہیں ابھی،زلفِ غزل آ تجھ کو
پھر عطا نکہتِ شیراز کیے دیتے ہیں
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں