فراغ روہوی(کولکتا)
ظلمت میں اجالوں کی ضمانت بھی وہی دے
ہر ساعتِ غم میں مجھے راحت بھی وہی دے
ہجرت تو رقم کی ہے مقدر میں اسی نے
قدموں کو مِرے عزمِ مسافت بھی وہی دے
جس نے دی اجازت مجھے آغازِ سفر کی
مجھ کو مِری منزل کی بشارت بھی وہی دے
امید کے ساحل پہ کھڑے ہیں کہ کسی پَل
اس پار نکل جانے کی صورت بھی وہی دے
ہے اس کے اشارے سے رواں میری رگوں میں
اب خون کے دھارے کو حرارت بھی وہی دے
آنکھوں کو مری جس نے عطا کی ہے بصارت
اے کاش! مرے دل کو بصیرت بھی وہی دے
ہے طاقتِ گفتار مری اس کی عنایت
لفظوں کو مرے حسنِ بلاغت بھی وہی دے
رکھا ہے مجھے صبر کے زنداں میں جب اُس نے
اک روز فراغؔ اذنِ بغاوت بھی وہی دے