احمد منظور
محفلیں چلتی رہیں گی گھر بھی چلنا چاہیے
رات کافی ہو چکی ہے اب نکلنا چاہیے
ہے تھکن تو بے دھیانی تان کر سو جائیے
ہاں مگر آنکھوں میں رنگیں خواب پلنا چاہیے
ہر قدم پر ہے زمانے کی ہوا کا سامنا
سوچ لیجے کیا ہمیں بھی رخ بدلنا چاہیے
سوچ نے پھر سینگ بدلے زلزلہ آنے لگا
پھر مجھے آتش فشاں صورت ابلنا چاہیے
ذائقہ اپنی زباں پر جاگتی راتوں کا ہے
کر چکے آوارگی یعنی سنبھلنا چاہیے
سب بڑے بوڑھے ہمارے درمیاں سے اٹھ گئے
اب تو اپنے آپ کے آگے مچلنا چاہیے