احمد منظور(ممبئی)
ہیں سلامت سوچ کے شہپر مرے پیشِ نظر
دور تک مہرومہ واختر مرے پیشِ نظر
اک سعی ناکام سایوں کی ہماری پشت پر
اور ڈھلتی شام کا منظر مرے پیشِ نظر
نیم کا اک پیڑ کڑوا سا پیاؤ کے قریب
پیاس ہے اور دھوپ کا لشکر مرے پیشِ نظر
وحشتوں کی گرہیں کھولیں عقل کے ناخون نے
طشت میں لایا گیا جب سر مرے پیشِ نظر
لا شعوری تہہ میں جاگ اٹھتی ہے جب انگار سوچ
جھلملا اٹھتا ہے اپنا گھر مرے پیشِ نظر
ابرؤں کے سب اشارے، چشم کی فنکاریاں
لاکھ ہوں پردے کے پیچھے پر مرے پیشِ نظر
نور سے خالی نگاہیں، لمس سے عاری بدن
رقص میں پریاں قطار اندر مرے پیشِ نظر
ڈور سے ٹوٹی ہوئی کٹھ پتلیوں کے مثل ہیں
سب تماشائی نشستوں پر مرے پیشِ نظر
بن لیا ہے میں نے اپنے گرد شہرت جال سا
ہیں بصد آداب دانشور مرے پیشِ نظر