اشہر ہاشمی
کہیں پروازکو یہ آسماں کچھ کم پڑا ہوگا
پرندے کا لہو شائد تبھی مدھم پڑا ہوگا
کس کو یہ غلط فہمی تمنا اک قدم بھر ہے
کسی سے زیر ہونے کے لئے عالم پڑا ہوگا
زمینیں دوسروں پر تنگ کرنے والے دیکھیں تو
کہیں نزدیک ہی اک خطہ با ہم پڑا ہوگا
مسیحا کے گزر کی اطلاع عام آتے ہی
تن مردہ میں بیماروں کے کچھ تو دم پڑا ہوگا
جنہیں آفاق میں ہر سمت تاریکی نظرآئے
نہ جانے کیسے ان کے ہاتھ جام جم پڑا ہوگا
کوئی موضوع ہو تم سے بھی تھوڑی بات کرتاہوں
ذرا نٹ کھول کر دیکھو مرا کالم پڑا ہوگا
غزل گوئی میں اشہر ہاشمی کا لوٹ کر آنا
جبین بے نوائی پر یقینا خم پڑا ہوگا