اشہر ہاشمی(دہلی)
سماعت اور گویائی بہت کچھ سہتی جاتی ہے
مگرجو بات کہتی سنتی تھی ، وہ رہتی جاتی ہے
ہوا کاکام ہے بہنا،مسلسل بہتی جاتی ہے
مگر سرگوشیوں میں جانے کیا کچھ کہتی جاتی ہے
کسی کی بے ارادہ بے سبب بے سمت صدقدمی
طبیعت میں تلون کی کہانی کہتی جاتی ہے
مری یہ ضد کہ اپنے آپ کو دہرانے سے روکوں
بہت کچھ مسترد کرنے کا دکھ بھی سہتی جاتی ہے
غزل گوئی کو اشہر ہاشمی کار زیاں کہہ کلیں
یہی دستاروجہ سرفرازی رہتی جاتی ہے
کسی انکار کو وجہ خرابی کیا کہوں ا س سے
زیادہ سے زیادہ خوبی یکجہتی جاتی ہے
کمال بے نیازی ہے کہ ہے آوارہ پن اس کا
رواں لہروں پہ کشتی بے ارادہ رہتی جاتی ہے