صادق باجوہ
کیوں بھلا دیوار و در ہلنے لگے
کیا کنول یادوں کے پھر کھلنے لگے
دور تک دیکھا افق تو یوں لگا
پھر زمین و آسماں ملنے لگے
کچھ ملالِ نا رسائی تو نہ تھا
کیوں ریا کاری سے پھر ملنے لگے
منتظر کواِذنِ گویائی کے بعد
ڈس گئی چپ ہونٹ بھی سِلنے لگے
وقت نے پھاہا رکھا تھا وقت کا
پھول زخموں کے مگر کھِلنے لگے
لب کشائی کا یہ خُمیازہ ہے کیا
جرمِ نا کردہ کے پھل ملنے لگے
دیکھ لینا! آہ کی تاثیر بھی
ظلم کی پاداش جب ملنے لگے