صادق باجوہ(امریکہ)
کیا رکھا ہے کس کو سنائیں ، کون سنے ان باتوں کو
من مندر کی پوجا کرنے کون اُٹھے گا راتوں کو
اشکوں کے سوتوں کو بہتے ایک زمانہ بیت گیا
دور کہیںلے جاؤ اپنی یادو ں کی سوغاتوں کو
بے کل نظریں رستہ تکتی، پتھرائی، بے نور ہوئیں
کس کے بس میں ہوپھر دیکھے خوشیوں کی باراتوں کو
اکھیاں مُوندے جاگتے رہنا سوچوں کے صحراؤں میں
چین گنوا کر، نیند چُرا کر،کیا ملتا ہے راتوں کو
لوٹ چلی پھر کالی بدلی بِر ہا بَرکھا سے مل بیٹھی
آس کے مارے دیکھ رہے ہیں ساون کی برساتوں کو
جانے کب سے دیکھ رہاہے آتے جاتے راہی کو
رستہ بھی پہچانے شاید انسانوں کی ذاتوں کو
انجاناسا خوف لئے کیوں دل میں صاؔدق پھرتے ہو
یار و غم تو کھا جاتے ہیں خوشیوں کے لمحاتوں کو