عبدالاحد ساز
پنپ رہی ہیں عجب آہٹیں زمانے میں
کہ جیسے اب کوئی دن ہوں قیامت آنے میں
در آرہی تھی کسی اجنبی نظر کی کرن
شگاف تھے تری پلکوں کے شامیانے میں
غلام گردشیں اک سمت،اک طرف زینہ
رکھا گیا ہے مجھے قید درمیانے میں
شکستِ وعدہ کی محفل عجیب تھی تیری
مِرا نہ ہونا تھا برپا ترے نہ آنے میں
جواب ڈھونڈنے میں لطف اہلِ دانش کو
مجھے سوال کو نغمہ بنا کے گانے میں
دیارِ یار میں صدیوں سے گونج ہے جس کی
’’مِری بھی لَے ہے اُسی راہ کے ترانے میں‘‘
مِری شناخت مِرا واقعہ ہے سازؔ مگر
کہانی اور کسی کی مِرے فسانے میں