عنبر شمیم
کسی بھی طرح کٹے ، ہم سبیل کرتے ہیں
ابھی تو رات ہے قصہ طویل کرتے ہیں
عجیب چیز ہے احباب کا رویہ بھی
مری نظر میں مجھی کو ذلیل کرتے ہیں
معاملات ہم آپس میں کرلیں طے تو خوب
نہیں تو آئیے دونوں وکیل کرتے ہیں
ابھی ستارے بہت ہیں ہماری آنکھوں میں
انھیں سے شب بسری کی سبیل کرتے ہیں
بیان میں جو نہ ہو حسن لفظ و معنی کا
تو جان بوجھ کے مصرعے ثقیل کرتے ہیں
منافقوں میں یہ دولت نہیں لٹانی ہے
لو اپنے دل کے خزانے کو سیل کرتے ہیں