حامدی کاشمیری
دشت ہے، خلدِ بریں ہے، کیا ہے
واہمہ حسنِ یقیں ہے، کیا ہے
آسمانوں سے بھی آگے تھا میں
پاؤں کے نیچے زمیں ہے کیا ہے
وہ بہت دور گئی ہے مجھ سے
میرے پہلو کے قریں ہے، کیا ہے
اک ذرا شعر میں ڈوبا تھا میں
خون آغشتہ جبیں ہے کیا ہے
رونے ،ہنسنے کی صدا آتی ہے
اس خرابے میں مکیں ہے،کیا ہے
آنکھ میں تیرگی بھر دیتا ہے
یہ کوئی مہرِ مبیں ہے، کیا ہے