قیصر شمیم
مجھے رہا تو اسی بات کا ملال رہا
کہ اس کے آئینۂ دل میں ایک بال رہا
اسے خیال رہا بھی تو کیا خیال رہا
کہ میرا زخم بہر حال اک سوال رہا
عروج ہم کو ملا بھی تو چار دن کے لیے
جو لازوال ازل سے تھا، لازوال رہا
اسی سے کتنے چراغوں نے روشنی پائی
’’وہ اک چراغ جو جلنے میں بے مثال رہا‘‘
تمہیں بتاؤ،تمہاری نظر کے ہوتے ہوئے
ہمارے زخم کو کب شوقِ اندمال رہا
خدا کرے کہ تمہاری حیات میں قیصرؔ
رہے نہ کرب وہی، جو گزشتہ سال رہا