عتیق احمد عتیق
جب بھی ہوتا ہے کناروں کا سفر پانی میں
پڑنے لگتے ہیں کئی اور بھنور پانی میں
پھر تو کچھ اور بھی ہو جاتی ہے پانی پانی
مجھ سے ملتی ہے جو پانی کی نظر پانی میں
بود و نابود کے سنگم کا پتہ دیتا ہے
تہہ نشیں ہو کے،جزیروں کا نگر پانی میں
دیدہ ور انفس و آفاق کی ایک ایک جھلک
دیکھ لیتے ہیں،بہ امکانِ نظر پانی میں
ماند پڑ جاتا ہے مٹّی سے روابط کے بغیر
آگ برساتی ہواؤں کا اثر پانی میں
لہلہاتے ہیں تو بن جاتے ہیں آنکھوں کا سمان
پھلتے اور پھولتے خوابوں کے شجر پانی میں
ریت پر لوگ بنا لیتے کئی تاج محل
ناؤ کاغذ کی چلا لیتے اگر پانی میں
اُن سے موجوں کو پناہیں تو میسّر ہیں عتیقؔ
ہم نے پانی کے بنائے ہیں جو گھر پانی میں