عتیق احمد عتیق(مالے گاؤں)
اپنی حد سے جب گزر جائے گا لہرا پیاس کا
ایک قطرے میں سمٹ آئے گا دریا پیاس کا
پانی پانی ہو گیا،لَو دیتا صحرا پیاس کا
کس کے ہونٹوں سے لپک اُٹھا یہ شعلہ پیاس کا
نَو بہ نَو سمتوں کو بھی،گلہائے خوں سے بھر دیا
طے کیا کچھ اس جتن سے ہم نے رستہ پیاس کا
اپنے ہی دم خم کو چاٹے ہے،کڑکتی دھوپ میں
جلتے لمحوں کا شجر،پھیلا کے سایہ پیاس کا
سچ تو یہ ہے وہ مِری ہی جستجو کا کرب تھا
لے اُڑا مجھ کو سرابوں تک جو لہرا پیاس کا
برف کی یہ سِل نہ ٹوٹی،تیشۂ مَے سے تو ہم
دھوپ ہی پی کر ،کریں گے حل معمّہ پیاس کا
دکھ کی پتھریلی چٹانیں ،بہہ نکلتے توڑ کر
دل کے جھرنوں میں کہاں تھا اتنا بوتا پیاس کا
قطرے قطرے،دانے دانے کو سراپے ہے عتیقؔ
بھوک کی ٹہنی پہ بیٹھا،اک پرندہ پیاس کا