رشید امجد(راولپنڈی)
(افسانوں کا مجموعہ)
مظفر حنفی شاعر کی حیثیت سے کسی تعارف کے محتاج نہیں لیکن ان کے افسانوں کا یہ مجموعہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ان کے اندر ایک بہت اچھا کہانی گو بھی چھپا بیٹھا ہے۔
مظفر حنفی کے افسانے موضوعاتی طور پر اپنے گرد و نواح سے بحث کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ کی سماجی، معاشرتی اور معاشی نتائج کے مسئلے کے نتیجہ میں اس طبقے میں جو الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں، مظفر حنفی نے انہیں موضوع بنایا ہے چنانچہ ان کے افسانوں میں موضوعاتی تنوع افسانہ کے دیگر لوازمات پر حاوی رہتا ہے۔
فنی طور پر یہ افسانے کہانی سے زیادہ قریب ہیں۔ اکثر افسانوں میں کہانی کہنے کا انداز، داستان نما ہے۔ اردو افسانے مٰن اس دوران جو نئے رجحانات آئے ہیں یہ افسانے ان سے متاثر نظر نہیں آتے۔
مظفر حنفی نے ان افسانوں کے توسط سے زندگی کا گہرا مطالعہ کیا ہے اور جس سیدھے سادھے انداز میں زندگی کو دیکھا ہے اسی طرح بیان کردیا ہے۔ ان کے کردار زبان و بیان کی الجھنوں میں پڑنے کی بجائے راست عمل پر گامزن نظر آتے ہیں۔ یہ کردار ایک عام انسان کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے غیر معمولی بنا کر پیش نہیں کیاگیا ہے۔
مظفر حنفی کے افسانوں میں ساری باتیں وضاحت سے بیان ہوئی ہیں۔ اس سے ایک فائدہ یہ ضرور ہوا ہے کہ قاری چیزوں کو بہ آسانی سمجھ لیتا ہے اور ابہام کا خدشہ نہیں رہتا لیکن بعض اوقات یہ وضاحت افسانے کے تحیر اور تجسّس کو نقصان بھی پہونچاتی ہے۔ اور بعض چیزیں جنہیں اوجھل رہنا چاہیے، کھل کر سامنے آجاتی ہیں۔
اردو افسانہ اب ایک نئے دور کا آغاز کر چکا ہے۔ مظفر حنفی کے افسانے اس نئے دور کا ساتھ نہیں دیتے۔ یہ افسانے جیسا کہ انہوں نے خود دیباچہ میں لکھا ہے۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے درمیان کے ہیں۔ اس دوران اردو افسانہ ایک طویل راستہ طے کر چکا ہے۔ تاہم ان افسانوں کی اپنی حیثیت موجود ہے۔