ڈاکٹر انورسدید(لاہور)
ایک عرصے تک ڈاکٹر مظفر حنفی کو شاد عارفی کے قبیلے کا شاعر شمار کیا جاتا رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شاد عارفی کے ہونہارتلاندہ میں سے ہیں اور بات کو کھردری سچائی سے کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں تاہم اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ ایک طویل عرصے تک شاد عارفی کے سائے تلے سفر کرنے کے باوجوف مظفرؔ حنفی نے اپنی الگ انفرادیت نکھاری ہے ان کے شاعری کا ذائقہ الگ ہے اور وہ اپنی الگ پہچان بھی رکھتے ہیں، وہ اپنی تازہ ترین کتاب ’’طلسم حروف‘‘ میں انبوہ میں گُم نہیں ہوجاتے بلکہ اپنا تشخص اپنی شاعری کے حوالے سے قائم کرتے ہیں۔ مظفر حنفی نے قدیم سچائی کو جدید اسلوب میں قائم کیا ہے، وہ نہ تو خود انکشافی سے خوف کھاتے ہیں اور نہ جذبے پر بند باندھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اہم بات یہ کہ زمانے کے گرم اور سرد کو چکھنے اور اس سے نبرد آزما ہونے کے باوجود مظفر حنفی کے ہاں تلخی یازہرناکی پیدا نہیں ہوتی۔ ان کی یہ خوبی انہیں شاد عارفی سے مختلف مزاج کا شاعر ثابت کرتی ہے۔ مظفر حنفی نے اپناتخلیقی سفر ۱۹۶۰ء کے لگ بھگ شروع کیا تھا۔ اس وقت ترقی پسند تحریک اگرچہ اپنی گھن گرج ختم کر چکی تھی لیکن اس کے باقیات میں اونچا لہر اٹھانے والے دسیوں شاعر موجود تھے۔ مظفر حنفی نے مزید اونچی آواز اٹھانے کے بجائے شعر کی داخلی کیفیت کو اُبھارنے کی قابلِ قدر سعی کی اور اس کے لئے ایسا خوبصورت غیر رسمی انداز قبول کیا جو پہلے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور تھا۔ اس غیر رسمی انداز میں قاری کو داخلی سچائی سے مغلوب کرنے کی صلاحیت موجود ہے یہی وجہ ہے کہ اہل دنیا جب مظفر حنفی کو پڑھتے ہیں تو اکثر اوقات اس کا سامنا نہیں کر پاتے۔ ’’طلسم حرف‘‘ اسی قسم کی سچائیوں کا مرقع ہے اور مطفر حنفی صفتِ سیل رواں زمانے کے ہنگام کے ان سچائیوں کو روکتا ہے اور غزل یا نظم کی لڑی میں پرو ڈالتا ہے۔ یہ فعّال شاعر کی بہت اچھی مثال ہے، اس لیے متاثر کرتی ہے۔ کتاب کا معنی خیز لفظ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے۔ شمش الرحمان فاروقی نے انھیں سوداؔ کے نزدیک قرار دیا ہے۔ یہ کتاب شب خون کتاب گھر الہ آباد سے پندرہ روپے میں دستیاب ہے۔