آفرین حسین؍مشتاق احمد حامیؔ
آفرین: آپ کیوں لکھتے ہیں؟ اور ادب کی جانب کیسے مائل ہوئے؟
مظفر حنفی : کسی مچھلی کو معلوم نہیں کہ وہ پانی کے بغیر کیوں زندہ نہیں رہ سکتی اور کوئی پرندہ نہیں بتا سکتا کہ وہ کیوں چہچہاتا ہے۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ لکھنا پڑھنا میری زندگی کے لیے ویسا ہی ناگزیر ہے جیسے سانس لینا۔ بچپن سے ہی پڑھنے کا جنون سا تھا۔ مڈل کا امتحان قریب تھا ایسے میں والد مرحوم نے ’’طلسم ہوش ربا‘’پڑھتے ہوئے گرفتار کرلیا۔ سرزنش کرتے ہوئے یہ بھی کہہ گئے کہ ایسا ہی شوق ہے تو تعلیم حاصل کرکے خود کچھ ایسی کتابیں لکھو جنہیں زمانہ پڑھے چنانچہ چل مرے خانہ بسم اللہ ․․․․․․․․․․
آفرین: سیکڑوں افسانوں اور تین افسانوی مجموعوں کے باوجود آپ نے اس صنف کو خیر باد کیوں کہا؟
مظفر حنفی: بے شک ادبی زندگی کی ابتدائی گیارہ برسوں میں کہانیاں اور افسانے زیادہ تخلیق کیے۔ ۱۹۶۰ء کے آس پاس ادب میں جدید رجحانات کا بول بالا ہوا۔ جدیدیت نے تمام اصناف ادب میں مرکزیت اشاریت، علامت اور ابہام پر زور دیا۔ لیکن ان کی شمولیت سے شاعری، خصوصاً غزل کے نئے پروبال مل گئے۔ مجھے تخلیق کار ہونے کے ناتے شاید بروقت احساس ہوگیا اور میں نے افسانے کی جگہ غزل کو اپنا وسیلہ اظہار بنا لیا۔ میرا ایک مقطع ہے۔
بری نہیں ہے مظفر کوئی بھی صنف ادب
قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے
آفرین: افسانوی ادب آپ کی نظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟
مظفر حنفی: ادب میں فکشن کی اہمیت اور افادیت سے کوئی فاترالعقل ہی منکر ہوسکتا ہے۔ ہمارے ادبی سرمائے میں ایک سے ایک اچھا ناول اور افسانہ موجود ہے لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ فکشن کی عمر شاعری کی ایک چوتھائی ہے اور اس اعتبار سے اردو کا شعری ادب فکشن سے کئی گنا زیادہ بھی ہے اور وسیع بھی۔ کیا سبب ہے کہ تاحال اردو کی تینوں منتظم شخصیتیں (میر، غالب اور اقبال) شعری اصناف ہی سے تعلق رکھتی ہیں!
مشتاق:ادبی تحریکات اور رجحانات سے اردو ادب کو کیا فائدہ پہنچا ہے؟
مظفر حنفی: ادبی تحریکات اور رجحانات کے وسیلے سے یقینا ادب کو بہت سے فائدے ہوئے لیکن اس کے مضرت رساں پہلو بھی تھے مثلاً سرسید تحریک نے اردو ادب کو نئی سمت و رفتار عطا کی۔ نثر کو عام فہم آسان بنایا۔ مغرب سے اثر پذیری کا دروازہ کھولا۔ اور ناول نگاری کا آغاز اور نظم کا ارتقا اسی تحریک کی دین ہے لیکن اس کے مقصدیت پر زور نے غزل چھین لی۔ حالی خود اپنی شاعری کو ابالی کھچڑی سے تعبیر کرتے تھے۔ آگے چل کر ترقی پسند ادبی تحریک نے اردو افسانے کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ آزاد غزل پر شباب اسی تحریک کے زیر اثر آیا لیکن اس کی ندرت پسندی اور مخصوص نظریے کی پیروی نے نعرہ بازی کا روگ بھی پیدا کردیا اور اردو زبان کی آبرو کہلانے والی غزل اس تحریک کے ہاتھوں بھی بے آبرو ہوئی۔ جدیدیت کے رجحان نے علامت اور اشاریت و رمزیت پر زور دے کر غزل کو اس کی آب و تاب لوٹائی تو افسانے کو منہ بند بناکر اسے کہانی پن سے محروم کردیا اور نظم کو بھی اتنا مبہم بنا دیا کہ اہمال کے نزدیک پہنچ گئی۔
مشتاق: ما بعد جدیدیت سے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟
مظفرحنفی: جدیدیت کے لیے کہا جاتا ہے کہ یہ چند سکہ بند نقادوں کی جکڑ بندی اور تنگ نظری کے نتیجے میں رونما ہوئی تھی۔ ہندوستانی مابعد جدیدیت اپنے عہد کے دوبا اثر تنقید نگاروں کی باہمی رسہ کشی کے نتیجے میں منظر عام پر آئی ہے لیکن ہر تخریب میں تعمیر اور ہر تعمیر میں تخریب کے عناصر بھی شامل ہوتے ہیں۔ چنانچہ توقع ہے کہ اس کے وسیلے سے بالکل نئی نسل کو اپنی شناخت بنانے میں سہولت ہوگی۔
آفرین: ایک عمدہ شعر کی پہچان کیا ہے؟ کیا اس کے اجزائے ترکیبی ہو سکتے ہیں؟
مظفر حنفی: آفرین، جس طرح ایک اچھے انسان کی پہچان معیارات حالات اور زمانے کے تناظر میں متعین ہوتے ہیں اسی طرح جمالیات و شعریات ادب کا معاملہ ہے۔ پھر وہ مثنوی کا ہے، نظم کا ہے، قصیدے کا ہے یا غزل کا؟ ان باتوں سے بھی فرق پڑے گا۔ بحیثیت مجموعی میں غزل کے شعر میں نئے خیال اور طرز ادا کی ندرت کو سب سے بڑا معیارقرار دیتا ہوں بشرطیکہ شعر پر تاثیر بھی ہو۔ زبان کی صھت، اصلوب کی برجستگی، فکر کی تازگی اور احساس کی شدت کو بھی اجزائے ترکیبی کی حیثیت حاصل ہے۔ صنف سخن کا تعین ہوجائے تو ان کے اجزائے ترکیبی کو علمائے ادب نے بہت پہلے متعین کردیا ہے ان کی پابندی کرنا ہوگا۔
مشتاق: مغربی بنگال میں نئی نسل کے شعرا کہاں تک اپنی ذمہ داریوں کو نبھا رہے ہیں؟ کیا شعر گوئی کے معاملے میں وہ محتاط اور دیانت دار ہیں؟
مظفر حنفی: بھائی آپ کا سوال بہت خطرناک ہے اور اور بہتوں کو مجھ سے بدظن کر سکتا ہے چوں کہ میری طبیعت میں منافقت نہیں ہے، اس لیے واضح باتیں بے خوف و خطر کرتا رہتا ہوں۔ اب بھی عرض کرتا ہوں کہ چند شعرا کو چھوڑ کریہاں کی نئی نسل شعر گوئی کے معاملے میں خاصی غیر محتاط ہے۔ زبان کی لطافتوں اور نزاکتوں سے اکثر عدم واقفیت کا ثبوت دیتی رہتی ہے اور ادبی و تخلیقی ذمہ داریوں کے تئیں بہت لاپروا ہے۔ لیکن اس کے لیے میں نوجوانوں سے زیادہ ان سینیر شاعروں اور ادیبوں، استادوں اور کہنہ مشق اہل قلم کو ذمہ دار قرار دیتا ہوں، جنہوں نے ناجائز مقبولیت حاصل کرنے کے لیے سچ کہنے اور غلطی پر توکنے کا فریضہ بروقت انجام نہیں دیااور بے جا حوصلہ افزائی کے نام پر نئی نسل کو خام کاری پر آمادہ کرتے رہے، جس کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ گئی، تلفظ خراب ہوگیا، گرامر سے لاعلمی ہوگئی۔ اب خراب میدے، باسی دودھ اور نقلی گھی سے اچھی مٹھائی کیسے بنائی جا سکتی ہے؟ پھر بھی دو چار شاعر نئی نسل میں ضرور ایسے نظر آتے ہیں جن سے امیدیں وابستہ ہیں۔
آفرین: افسانہ اور کہانی میں کیا فرق ہے؟ بیش تر لوگ دونوں کو ایک ہی صنف تصور کرتے ہیں؟
مظفر حنفی: میرے خیال میں کہانی،ْصے اور حکایتوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، جس میں کوئی پر لطف اور عبرت انگیز واقعہ بیان کیا جاتا ہے، جب کہ افسانہ کسی خاص نکتے پر زور دینے کے لیے نفسیاتی دروں بینی جذبات کی عکاسی کے لیے یا سیرت کے کسی نمایاں پہلو کو اجاگر کرنے کے لیے جنم لیتا ہے۔ لیکن ادھر چند برسوں سے اردو والوں نے کہانی کو بہ طور اصطلاح افسانے کا مترادف تسلیم کرلیا ہے، کیوں کہ ہندی میں افسانے کے لیے یہی لفظ استعمال میں آتا رہا ہے۔ اس لیے جو لوگ انہیں ایک ہی صنف تصور کرتے ہیں ان سے تعرض نہیں کرنا چاہیے۔
مشتاق: درس و تدریس کے معاملے میں کلکتہ یونیورسٹی کی فضا کو آپ نے کہاں تک ساز گار پایا؟
مظفر حنفی: مشتاق میاں، فضاخراب کیا بہت خراب تھی۔ اسے سازگار بنانے میں جان کھپائی ہے۔ میں نے ۱۹۸۹ء میں شعبہ اردو کی اقبال چیئر پر بحیثیت پروفیسر جوائن کیا تو عالم یہ تھا کہ ایم اے (اردو) میں کل پچیس طلبا و طالبات کو داخلہ ملتا تھا۔ مہینوں کوئی کلاس نہیں ہوتی تھی۔ اساتذہ کہتے تھے کہ اسٹوڈنٹ نہیں آئے، کسے پڑھانے کے لیے کلاس میں جائیں۔ طالب علموں کا رونا تھا کہ دن بھر روم میں بیٹھ کر چلے آتے ہیں کوئی استاد زحمت ہی نہیں کرتا پھر یونیورسٹی میں ھاضری دے کر وقت کیوں ضائع کیا جائے۔ ایم اے اور بی اے کا نصاب آزادی کے بعد سے وہی چلا آرہا تھا اور ہندوستان کی دیگر یونیورسیٹیوں کے مقابلے میں بہت ہی کمتر معیار کا تھا۔ اساتذہ میں ٹیوشن کی لعنت جڑ پکڑ رہی تھی۔ امتحانات کے پرچے تیار کرنے سے لے کر کاپیاں جانچنے اور نتیجہ تیار کرنے کا سب کام مقامی ٹیچر کرتے تھے۔ امتحانات تین سال پچھڑے ہوئے تھے اور امتحان ہال میں نقل عام تھی۔ عموماً امید واروں کا امتحان ممحقوں کے انصاف پر اعتماد متزلزل تھا۔ پی ایچ ڈی کے لیے رجسٹریشن بہت ہی سطحی بلکہ ایسے فضول موضوعات پر بھی ہوجاتا تھا جن پر اخبار میں ایک آدھ کالمی مضمون لکھ دینا کافی ہوتا ہے۔ شعبے میں استاد بھی ضرورت کے اعتبار سے بہت کم تھے۔ نیز استاد و شاگرد میں اس رشتہ کا سخت فقدان تھا، جس کے بغیر تعلیم و تربیت کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا۔ گذشتہ بارہ سالوں میں فضاکتنی تبدیل ہوئی ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اب ایم اے(اردو) میں پچیس کی جگہ ۸۰امیدواروں کو داخلہ ملتا ہے۔ کلاسس پوری باقاعدگی سے ہوتی ہیں اور ۶۵فیصد سے کم حاضری پانے والے طلبا کو امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ یونیورسٹی میں میرا تیار کردہ نصاب تعلیم جاری ہوا اور اس کے معیار کو نمونہ قرار دے کر اب ہندوستان کی کئی دوسری معتبر یونیورسٹیوں نے اپنا نساب تیار کیا ہے۔ اس کے طرز پر کالج سروس کمیشن نے مجھ سے SLETکا نصاب تیار کرنے کی ذمہ داری تفویض کی۔ بہت سے مقامی سینیر اساتذہ کی مخالفت کے باوجود میں نے بی اے (آنرس) اور پاس کورس کا نصاب بھی یکسر تبدیل کردیا اور ہر سطح پر بنگال کے ادیبوں اور شاعروں کو نصاب میں شامل کر کے ان پرچوں کو لازمی قرار دیا گیا۔ ٹیوشن پڑھانے کے سلسلے میں اپنے قول و عمل سے اتنی بیزاری اور نفرت کا اظہار کیا کہ اب شعبے کے اساتذہ اس کے نام سے بیزار ہوچکے ہیں۔ امتحانات کو باقاعدہ کیا اور ہر سال کا امتحان بروقت ہونے لگا۔ نقل کے سلسلے میں اصولوں پر اتنی شدت سے کاربند رہا کہ یہ لعنت تقریباً ختم ہوگئی۔ ہرچند کہ مجھ پر سخت گیری کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ امتحانوں کے پرچے بنانے، جانچنے اور نتیجہ تیار کرنے کا ایسا سسٹم رائج کیا، جس میں ہیر پھیر کی گنجائش ہی نہیں تھی (سنتا ہوں کہ میرے سبکدوش ہوتے ہی پھر وہی پہلا سا طریق کار رائج کرنے کی کوشش ہورہی ہے، کیوں کہ اس میں اساتذہ اور دفتری اہل کاروں کو سہولت رہتی ہے)۔ پچھلے دس بارہ برسوں میں آدھے ممتحن ہندوستان کی دیگر دانش گاہوں کے ہوتے تھے۔ پرائیوٹ امتحان دینے والے طلبا نے بھی اس مدت میں اعلیٰ پوزیشنوں سے کامیابی حاصل کی ہے۔ پرچے کے سوالات آؤٹ ہونے اور Importantبتانے کی علت ختم ہوگئی۔ پیروی کرنے والے امیدواروں کی سختی سے سرزنش کی گئی اور کچھ کو سزائیں بھی ملیں۔ ان برسوں میں پی ایچ ڈی کمیٹی کا کنوینر میں رہا سفارش کی بنا پر کسی غیر مستحق ریسرچ اسکالر کو اس مدت میں داخلہ نہیں مل سکا اور ہمیشہ معیاری موضوعات کو ہی تحقیق کے لیے منظور کیا گیا جس کی ہندوستان بھر میں شہرت ہے۔ شعبے میں اساتذہ کی کمی سے نمٹنے کے لیے مری تگ و دو کے نتیجے میں چھ جزوقتی لکچرر فی الفور مقرر کیے گئے اور انہیں جہ صرف ریگولر اساتذہ کی طرح اہم ذمہ داریاں اور اختیار تفویض کیے گئے بلکہ اعلیٰ کمیٹیوں میں مخصوص دعوت ناموں کے ذریعہ بلاکر مشاورت میں شامل کیا گیا۔ اساتذہ اور اسٹوڈنٹ کے درمیان خوشگوار تعلق قائم کرنے کے لیے نہ صرف ایک روزہ پکنک وغیرہ کا رواج عام کیا بلکہ شعبے میں پہلی بار تقریباً تیس اسٹوڈنٹ اور چھ اساتذہ دارجلنگ وغیرہ کے ہفتہ بھر کے تفریحی سفر پر گئے۔ مزید برآں مسلسل لکھنے پڑھنے کی ایسی فضا بنائی کہ ہر سال شعبے میں استادوں میں سے کئی اپنی تصنیفات کو زیور طبع سے آراستہ کرنے لگے ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوسکا اس کی طویل داستان کہیں اور بیان کی جائے گی لیکن شعبے کے رفقائے کار کی معاونت کے بغیر فضا کسی صورت میں سازگار نہیں ہو سکتی تھی۔
مشتاق: آپ مغربی بنگال اردو اکیڈیمی کے اہم رکن ہیں۔ کیا آپ اکیڈیمی کی موجودہ کارکردگی سے مطمئن ہیں؟ تقسیم ایوارڈ کے معاملے میں اکیڈیمی کہاں تک غیر جانب دار ہے؟
مظفر حنفی: مطمئن تو خیر نہیں ہوں، کیوں کہ ہر جگہ ترقی اور تغیر کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ لیکن گورننگ باڈی کا ممبر ہونے کے باعث اس بات کی شہادت دے سکتا ہوں کہ اردو اکیڈیمی کے کام اس کے لیے مقرر قواعد و ضوابط کے مطابق ہوتے ہیں۔ یہ فطری امر ہے کہ اس کے بعض فیصلوں سے باہر کے تما م لوگ اتفاق نہ کریں۔ اگر تعمیری تنقیدیں کی جائیں تو ان کی روشنی میں اکاڈمی کو اپنے ضوابط میں مناسب تبدیلیاں کرنی چاہئیں۔ مجھے اکثر امور میں وج اختلافات ہوئے ان کا اظہار متعلقہ کمیٹیوں کی میٹنگ میں کرتا رہا ہوں۔ لیکن فیصلہ کسی خاص شخص کی مرضی سے نہیں بلکہ ممبران کی کثرت رائے سے ہوتے ہیں، اس لیے ان کا احترام کرنا لازم ہے۔ اس سے زیادہ وضاحت کرنا گورننگ باڈی کے رکن ہونے کے ناتے میرے لیے مناسب نہیں ہے۔
آفرین: آج کل اردو رسائل و جرائد کثرت سے شائع ہورہے ہیں اور پھر چند شماروں کی اشاعت کے بعد ان میں سے بیش تر دم توڑ دیتے ہیں، آخر اس کا سبب کیا ہے؟
مظفر حنفی: آفرین، میں سمجھتا ہوں ناتجربہ کاری اس کا سب سے بڑا سبب ہے۔ حالات کا بغور جائزہ لیے بغیر محض شوق کی تسکین کے لیے پرچہ جاری کر لینا اور ہے، اسے جاری رکھنا، خود کفیل اور پھر منافع بخش بنانا، اس کی پالیسی متعین کرنا، سرکولیشن بڑھانا، اشتہارات حاصل کرنا، معیار کو مسلسل بلند کرتے رہنا نئے مدیران کو نہیں آتا۔ ایک ہی شخص مدیر سے لے کر پروف ریڈر اور نامہ بردار تک سب کام بغیر کسی پلاننگ کے کرتا ہے اور یہ سب کسی خاص مقصد مناسب سرمائے اور خلوص کے ساتھ نہیں ہوتا صرف ایڈیٹر کہے جانے اور زیادہ محنت کے بغیر ادبی حلقوں میں جلدی معروف ہوجانے کی سطحی خواہش کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رسالے دو چار سماروں کے بعد پردۂ خفا میں چلے جاتے ہیں۔ اردو والوں کے پرچے خرید کر نہ پڑھنے کی ادا اس کمزوری کا ایک اور بڑا سبب ہے۔
آفرین: مغربی بنگال میں اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟ اردو سے متعلق ریاستی حکومت کے رویے سے آپ کہاں تک مطمئن ہیں؟
مظفر حنفی: چار پانچ برس پہلے بی بی سی(لندن) نے اس موضوع پر مجھ سے مفصل انٹرویو لیا تھا جو دو قسطوں میں نشر کیا گیا( اس کا متن میرے سفر نامے ’’چل چنبیلی باغ میں‘‘ کے ضمیمے میں شامل ہے)۔ یہاں مختصراً عرض کروں گا کہ اردو کی حالت ہندوستان کی ان ریاستوں میں زیادہ خستہ ہے جہاں کی سرکاری زبان ہندی ہے۔ غالباً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اردو کی ترقی سے ہندی کی مقبولیت کم ہوگی۔ گجراتی، تیلو، مراٹھی، بنگلہ وغیرہ زبانوں سے متعلق ریاستوں میں اردو کا حال یقینا بہتر ہے اور وہاں مستقبل سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ بنگال کی ریاستی حکومت نے اردو کے لیے جو کچھ کیا ہے وہ دوسری ہندی ریاستوں کے مقابلے میں بہت بہتر سہی لیکن ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اردو اسکولوں کے اساتذہ کی اسامیاں بڑھنی چاہئیں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کالی جگہوں پر تقرر جلد کیے جائیں اور کلکتہ یونیورسٹی کے علاوہ کم از کم دیگر یونیورسٹیوں میں بھی اردو میں ایم اے کی تعلیم کا بندوبست ہونا چاہیے۔ در اصل اس ریاست میں عوام اردو کی تحریک اس جوش و خروش کے ساتھ نہیں چلاتے جیسا کہ مثال کے طور پر بہار والے چلاتے ہیں۔
آفرین: یہاں کے اردو والوں کا آپ کے ساتھ کیسا رویہ رہا؟
مظفر حنفی: کلکتہ اور ریاست بنگال کے دوسرے شہروں میں اردو والوں نے مجھے آنکھوں پر بٹھایا اور دلوں میں جگہ دی جس کے لیے میں عمر بھر ممنون و مشکور رہوں گا۔ یہاں اپنے بارہ سال قیام کے دوران یاد نہیں آتا کہ کوئی بڑا ادبی مشاعرہ یا تقریب ایسی ہوئی ہو جس میں مجھ کو بحیثیت صدر یا مہمان خصوصی مدعو نہ کیا گیا ہو۔ اپنی خرابی صحت یا عدم مصروفیت کی وجہ سے اکثر معذرت خواہی کرلیتا تھا۔ خصوصا گذشتہ دو برسوں میں بہت کم جلسوں میں شرکت کی، کیوں کہ کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ’’وضاحتی منصوبے‘‘ کے تحت بہت قلیل مدت میں بڑے پروجیکٹ کی بائیس جلدیں مکمل کرنی تھیں اور اسی دوران میں بلڈ پریشر اور ذیابطیس جیسے مرض کا شکار بھی ہوگیا تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ اردو داں اور اردو کے اہل قلم نے مجھے بے حد احترام، محبت، اپنائیت سے نوازا۔ میری حق گوئی اور بے باک مشوروں کو قبول کیا۔ نیز بڑی سے بڑی شخصیت کی ادبی خامیوں کو برسر جلسہ نشان زد کرنے کے باوجود میری نیت اور خلوص پر شبہ نہیں کیا گیا۔ اس کا اس سے بڑا دوسرا انعام نہیں ہو سکتا۔ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات اور اردو ڈپارٹمنٹ کے ساتھیوں سے بھی بے پناہ محبے اور احترام ملا۔ سب کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میری تلخ و ترش باتوں، اعتراضات اور بے لوث طرز عمل کا اندازہ یوں ہو سکتا ہے کہ پچھلی دہائی میں جتنی تعداد میں سہ ماہی رسائل اور ماہنامے شائع کیے گئے اتنے آزادی سے قبل یا آزادی کے بعد کی دہائی میں کبھی نہیں شائع ہوئے۔ اب شاعر، بھی تبدیل ہوا ہے اور تقلید کی جگہ رفتار لے رہی ہے اس علاقے کے شعرا اور ادبا اور ان کی کتابوں پر تبصرے ہندوستان کے معیاری پرچوں اور بعض پاکستانی جریدوں میں بھی چھپنے لگے ہیں۔ اب ادبی محفلوں میں شاعر کچھ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور تلفظ کی صحیح ادائیگی کی کوشش کرتے ہیں۔ یعنی گاڑی حرکت میں آگئی ہے جلد ہی رفتار اور تیز ہوجانے کا یقین ہے۔
مشتاق: آپ کی نظر میں آزاد نظم کی حیثیت کیا ہے؟
مظفر حنفی: بھائی مشتاق حامی! آزاد نظم اردو کیا عالمی ادب کی ایک اہم ارکار آمد صنف سخن ہے، جس کے وسیلے سے بہت سے بڑے فن کار ابھرے ہیں۔ اس کی خرابی بس اتنی ہے کہ پابند شاعری کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔ اس لیے اکثر فن سے نابلد متشاعروں نے اس کو اپنی تشہیر کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ اب تو ان لوگوں کے لیے نثری نظم بھی وجود میں آگئی۔
آفرین: ہندوستانی ادب اور بیرونی ممالک کے ادب میں کہاں تک مماثلت پائی جاتی ہے؟
مظفر حنفی: میں بیرونی ملک کے ادب سے محض انگریزی کے ذڑیعہ واقف ہوں۔ اصناف ادب کے موضوعاتی اور ہیئتی تقاضے سے بالاتر ہوکر دیکھیں تو ہر ادب اپنی ہم عصر زندگی کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ خواہ یہ آئینہ اردو کے فریم میں جڑا ہو یا فرانسیسی طرز کو ہو عکس اس میں زندگی کا ہی ہوگا۔
مشتاق: آپ اپنی شاعری سے کہاں تک مطمئن ہیں؟ اگر مطمئن ہیں تو پھر مزید شعر کہنے کی کیا ضرورت ہے؟
مظفر حنفی: آپ سے کس نے کہا کہ میں مطمئن ہوں اپنی شاعری سے؟ میرا ایک شعر ہے:
وحشت کب رہنے دیتی ہے گھر پچیسوں بار بنایا
تاحال اٹھارہ سو سے زائد غزلیں، دو سو کے قریب نظمیں، سات آٹھ درجن رباعیاں اور دیگر تخلیقات وجود پا چکی ہیں۔ لیکن لگتا ہے اندر کا لاوا اور بڑھ گیا ہے۔ ابھی بہت کچھ کہنا ہے۔ آپ کی دنیا بھی تو کتنی ٹیڑھی میڑھی ہے!
مشتاق: کیا شاعر کے لیے زود گوئی اور بسیار نویسی بھی ضروری ہے؟
مظفر حنفی: قطعی ضروری نہیں۔ یہ تو شاعر کے ظرف اور افتاد و استعداد پر منحصر ہے۔ غالبؔ بہت کم کہہ کر عظیم کہلائے۔ میر تقی میر اور اقبال بھی عظیم شاعروں میں ہیں اور دونوں نے بہت کہا ہے لیکن ایک پیمانہ یہ ضرور ہے کہ اچھا کہو خواہ کم ہو۔ اچھا بھی ہو اور زیادہ بھی تو سبحان اللہ نشان خاطر رہے کہ بہت کم کہنے والوں میں بہت خراب کہنے والے بھی موجود ہیں!
مشتاق: آپ کی نظر میں ہندوستان کا سب سے بڑا ناقد اور شاعر کون ہے؟
مظفر حنفی: میرتقی میر نے تو ویسے ہی کسی سوال کے جواب میں سودا کی ہجونگاری کے خوف سے اپنے ساتھ ان کا نام بھی شامل کرلیا تھا۔ ہمارے دور میں تو بفضلہٖ سوداؔ جیسا کوئی ہجو گو موجود نہیں ہے۔ سنجیدہ جواب یہ کہ بھائی ابھی ہندوستان میں زندگی بسر کرنی ہے۔ ایسے سوالوں کے جواب دے کر جان خطرے میں نہیں دالوں گا۔ ہرگروپ کا اپنا بڑا بلکہ عظیم شاعر موجود ہے اور ہرجماعت نے قد آور نقاد کھڑے کر رکھے ہیں۔ فیصؒہ آنے والی نسلیں کر دیں گی۔ ایک لطیفہ سنیے۔ پروفیسر وشنوکانت شاستری اس وقت کلکتہ یونیورسٹی میں صدر شعبۂ ہندی تھے۔ موصوف اجودھیا سے کارسیوا انجام دے کر لوٹے تو یونیورسٹی کے اسٹاف روم میں ملاقات ہوئی۔ بندگی کے بعد مصافحے کو ہاتھ بڑھایا تو بھائی نے کچھ اتنی زور سے اور ایسے رخ سے دبایا کہ جان ہی نکل گئی۔ عرض کیا حضرت، یہ غریب حنفی کا ہاتھ ہے آپ اسے بابری مسجد کیوں سمجھ رہے ہیں۔ آپ کا موجودہ استفسار بھی کچھ ایسے ہی رخ سے کیا گیا ہے!
آفرین: ایک اچھے شاعر یا تخلیق کار ہونے کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہے؟
مظفر حنفی: پہلے تو وہ مادہ یا صلاحیت، ’تانہ بخشد خدائے بخشندہ‘ کسی کاوش یا تربیت سے حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اگر یہ وہبی وصف موجود ہے تو شاعر یا تخلیق کار کو مسلسل کاوش، مطالعے، مشاہدے اور تجربے سے اسے بڑھاتے رہنا چاہیے۔ اطہار پر قدرت، زبان پر مہارت ، احساس میں شدت، طرز ادا میں ندرت بھی شرط ہے۔ اپنی زبان کے ادب پر نظر ہونی چاہییاور کسی دوسری بڑی عالمی زبان کی مدد سے بیرونی دنیا کے ادب کا مطالعہ بھی لازمی ہے۔
آفرین: بنگال میں اپنے ہم عصر شاعروں میں آپ کس سے زیادہ متاثر ہیں اور کیوں؟
مظفر حنفی: بیٹی! تم بھی ایک لطیفہ سنو۔ کلکتہ آمد کے تین سال بعد میرے وائس چانسلر نے پوچھا حنفی صاحب اب تو آپ کو بنگلہ زبان آگئی ہوگی۔ میں نے کہا جناب میں اپنی اردو بچانے میں لگا رہتا ہوں بنگلہ کب اور کیسے سیکھتا؟ تمہارے سوال کا جواب بھی اس لطیفے سے نکلتا ہے۔
مشتاق: اقبال کی حیثیت آپ کی نظر میں ؟ کیا فیض بڑے شاعر نہیں تھے؟
مظفر حنفی: بے شک اقبال ہمارے تین شاعروں میں سے ایک ہیں۔ اردو نے اتنا بڑا نظم نگار تاحال نہیں پیدا کیا۔ ان کے فن اور شخصیت پر سینکڑوں کتابیں آچکی ہیں۔ اس لیے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ فیض یقینا اچھے اور اہم شاعر ہیں لیکن انہیں عظیم نہیں کہوں گا۔
مشتاق: کیا مشاعروں کی افادیت آج بھی مسلم ہے اور آج کے مشاعرے بقائے اردو کے ضامن ہیں؟
مظفر حنفی: حال ہی میں ماہنامہ ’’افکار‘‘ کراچی نے اس موضوع پر میرا مضمون بطور اداریہ شائع کیا ہے۔ تفصیل تو وہاں مل جائے گی لیکن مختصراً عرض ہے کہ اپنی سطحیت اور مضر اثرات کے باوصف آج بھی مشاعروں سے اردو کی بقا میں مدد مل رہی ہے کچھ اصلاح ہوجائے۔ ان سے متشاعروں، گوئیوں، اداکاروں، ادبی طوائفوں، بھانڈگردی کرنے والے مزاحیہ شعرا کو دور رکھا جائے تو مشاعروں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ہر مشاعرے میں عوامی مقبولیت کے حامل چند اچھے اور سچے شاعروں کے ہم راہ ادبی مرتبہ رکھنے والے شاعروں کی کثرت ہونی چاہیے۔ جیسا کہ جوش و جگر کے زمانے میں ہوتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک زمانہ تھا جب مشاعرہ کا ادارہ دوہری افادیت کا حامل ہوتا تھا۔یہ ابلاغ کا ایک موثر ذریعہ بھی تھا اور نئے لکھنے والوں کی تربیت گاہ بھی تھا۔ اس دور کے گزرنے کے بعد ادبی رسائل کی صورت میں وسیع ذریعۂ ابلاغ سامنے آیا جو ادبی تربیت گاہ کا کرداربھی مشاعرہ سے کہیں بہتر کرتا ہے۔اس کے باوجود مشاعرہ کی روایت کسی نہ کسی صورت میں ابھی تک چلی آرہی ہے۔ مجھے مشاعرہ بازی کی مخالفت نہیں کرنی لیکن میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ ادارہ اپنی ادبی افادیت کھوچکاہے اور ادبی حوالے سے اس کی اب کوئی اہمیت نہیں رہی۔ثقافتی میلے کی صورت میں یہ
بے شک چلتا رہے۔
(حیدر قریشی کے مضمون اردو زبان و ادب کے چند مسائل سے اقتباس)