گرامی قدرحیدر قریشی ! السلام علیکم
جدید ادب شما رہ ۱۱ ( کچھ رشتے ٹوٹ گئے۔ برتن مٹّی کے ۔ ہاتھوں سے چھوٹ گئے) ایک تحفۂ خاص کے طور پر ملا۔شکر گزار ہوں۔حسین گردپو ش نفیس کاغذ،نظر نواز طبا عت اور روشنی طبع کو افزود کر نے و الے مشمو لات نے اس شمارے کو محض ایک اور ادبی جریدے سے کہیں زیادہ معتبر بنا دیا۔رشتوں کے ٹوٹنے کے دکھ میں شریک ہو نے کا دعویدار تو نہیں بن سکتا۔البتہ اپنے ماضی کے ایسے ہی تجربوں کو یاد کرکے۔۔ آپکے ساتھ خود بھی اداس ہوسکتا ہوں۔ سو ہورہا ہوں۔’’گفتگو ‘‘میں آپ پہلے پیرا گراف میں ما ورائیت پر ایک مثبت انداز اختیار کر تے ہیں اور دوسرے میں آپ کا تخا طب ان پر مر کوز ہو جا تا ہے جن کی نشان دہی انکے ناموں سے کر نے کے بجائے ان کے رویوں سے کر تے ہیں۔اس ضمن میں آپ کی یہ منطق اچھی لگی کہ جعلی سکّہ اس حقیقت کا ثبوت ہے کہ اصلی سکّہ اپنا وجود رکھتا ہے۔۔۔نقل اپنی اصل کی شاہد ہے۔۔۔تو پھر یہ نتیجہ بھی ا خذ کر نا ممکن ہے کہ نقل جب پکڑی جا تی ہے تو اصل کو اور زیادہ مستحکم یا روشن کر دیتی ہے۔رہا یہ معا ملہ جس کا تعلق مشاہدے سے ہے تو بقول غالب
اصل شہو د و شاہد و مشہود ایک ہیں حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
سامنے کی حقیقت کے عقب میں موجود حقیقت تک رسائی حواس خمسہ کے ذرائع بصارت وغیرہ کی مدد سے ممکن نہیں ہے اس کے لئے بصیرت( وژن) کی ضرورت پڑ تی ہے لیکن بصیرت بھی لا محدود نہیں اسی طرح مادہ پرست سائنس مادّے کے پارٹیکلز کے اندر دا خل ہو کرالیکٹران اور پرو ٹان کے رقص وصال طلب ووصال گریز کے تجربہ گاہی(لیبارٹری ریسرچ) مشاہدے سے آ گے نکل چکی ہے لیکن ہنوز دلّی دور ہے اور اس دور والی دلّی کی جا نب انسان کی پیش رفت جار ی ہے ۔ وجدان اور سائنس دونوں واسطوں اور راستوں سے۔یہ نا مناسب بات ہے کہ وجدان کے واسطے کو قطعی طور پر رد کردیا جا ئے اور سائنس کے واسطے کو قدر اور اعتبار سے نوازا جا ئے یا اس سے بھی بڑی زیادتی کا ارتکاب یعنی ما ورائیت کی جا نب ادب کی پیش رفت کو مطعون قرار دے کر مسترد کر دیا جا ئے ۔آپ کی جامع گفتگو پر میں نے گفتگو کی۔خواہ عبث ہی کی ۔ لیکن اگر نہیں کرتا تو اپنے ضمیر کا مجرم بن جا تا ۔آج کے عہد میں کتنے ا دبی جرائد کے مدیران گرامی ادب کو اس سنجیدگی سے لے رہے ہیں جس سنجیدگی سے اس نوع کی ’’گفتگو‘‘ اور اندرونی اوراق میں معتبر مطالعاتی ادبی مواد پیش کرنے والا یہ مدیر ’ جدید ادب‘ کر رہا ہے۔ میرے خیال میں کسی اچھے کام کو دیکھ کر چپ رہ جانا بذات خود ایک برا کام ہے ۔
آغاز میں صباؔاکبرآ بادی کی پہلی دعا نے رلا دیا۔ کسی شعر کو ہونٹوں نے کا غذ پر چوم لیا۔کلیم شہزادکا لوک شا عری کا شائبہ لیا ہوا لہجہ بھی دل کو چھو گیا ۔ شبانہ یو سف کا مقالہ ’’ سارتر کا فلسفۂ وجودیت ‘‘ میں نے دلچسپی سے پڑھا ۔ سارتر کی وجو دیت آج تک میری سمجھ میں نہ آ سکی۔ مضمون میں جو سوالا ت اٹھا ئے گئے ہیں اور بعض گتھیوں کو جس طرح سلجھا نے کی کو شش کی گئی ہے وہ اپنی جگہ قابل تعریف ہے میں نے ہمیشہ یہ آواز اٹھائی ہے کہ مشرق کی وجودی فکر جو مغرب کی وجودی فکرسے قطعی مختلف ہے توجہ کی طا لب ہے ۔ مجھ میں تو اتنا دم خم نہیں کاش کوئی اور اس طلب پر نگاہ کرے۔ ۔اس نصف فقرے سے شبا نہ یو سف کی توا نائی اظہار کا اندازہ لگا لیجئے ۔
’’۔۔۔انفرادی اچھائی کی ندیا تو مجموعی برا ئی کے سمندر میں ڈوب جاتی ہے۔‘‘
غز لوں میں انور سدیدؔ ، احمد صغیر صدیقی،غلام مرتضی راہی،اکرم باجوہ طاہر عدیم ،مبشر سعید کی غز لیں بھلی لگیں۔
سلطان جمیل نسیم کے افسا نے’’ مو سم کی پہلی بارش ‘‘میں مرکزی کردار کی جنسی جبلّت کا مطالعہ جس طرح معصومیت کی حدود کے اندراور فطرت کے قریب رہتے ہوئے کیا گیا ہے وہ عصمت‘ منٹو ‘ تینیسی ولیم اور ڈی ۔ایچ لا رنس سے رویّے اوربرتاؤ کے ضمن میں قطعی مختلف ہے اس سے افسانہ نگا ر کے فنّی ریاض اور وجہ امتیا ز دونوں کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔’’ کھا رے پا نی کا کنواں ‘‘ میں سلیم آ غا قزلباش نے جس طرح جہاز اڑایا ہے اس طرح کنویں میں کود کر جان دینے والی کے کر دا ر کو اڑاتے تو بات بنتی ۔وہ تو اڑنے سے پہلے ہی لینڈ کر گیا ‘۔شفیق انجم کا ’ میں پلس میں‘ شاید کسی اور شعبے سے پھسل کر افسا نے کے شعبے میں آ گیا ہے ۔ مونگیر کے اقبال حسن آزاد نے ’ رونے وا لے‘ خوب لکھا اور کمال یہ ہے کہ اسکی ریڈ ایبیلیٹی بر قرار رکھی۔اسکے بعد آپ نے ٹیبل پیس کے طور پر جوگندر پال سے اقتباس ٹا نک کرافسانے کو مزید نمایا ں کر دیا۔چشمہ بیراج والے محمد سراج کو ان کے اس زبر دست سٹائر پر مبا رکباد پیش کر تا ہوں۔ اسلوب اور زبان کی جتنی تعریف کی جا ئے کم ہے۔کینیڈا والے ڈاکٹر بلند اقبال کا افسانہ ’ بو ‘ طنزیہ ہونے کے سا تھ المیہ بھی ہے۔افسانہ مختصر ہونے کے باوجود تفا صیل اور جزئیات سے معمورہے۔لائق تحسین ہے ۔ مانسہر ہ کے جان عالم کا افسانہ ’’ ارشد جان کیوں نہیں آ تا ‘‘ افسانے کے لو از مات کا حا مل کامیاب افسا نہ ہے۔فیصل آبا د کے سیّدعلی محسن کا افسا نہ کمال چا بکد ستی سے لکھی ہوئی تحریر ہے ۔افسا نے کے اختتا م پر بے ساختہ ہنسنے کو جی چاہتا ہے۔ نظموں کے شعبے کا انور سدید آ غاز کر رہے ہیں۔بڑی حقیقت پسندانہ نظم ہے اس میں مو ضوعی کو معروضی کر کے ڈرامائی اسلوب سے زندہ اور متحرک کیاگیا ہے۔ پسند آئی۔نیرّجہا ں کی دونوں نظمیں نسائی توا نائی سے معمور ہیں۔ کاشف عبا سی کی دونوں نظمیں اچھّی ہیں۔ کراچی کے کسی شاعر سے ایسی اردو کی توقّع نہیں کی جا سکتی تھی یہ اردو پلس ہندی ہے۔آپ جانتے ہیں کہ میں اردو اور ہندی کو جڑواں زبا نیں کہتا ہوں ( اردو پلس ہندی)یا (ہندی پلس اردو ) علیحدہ زبا نیں نہیں مانتا۔خواہ اردو میں جتنی چا ہے فارسی اور ہندی میں جتنی دل میں آئے سنسکرت دا خل کر دی جا ئے۔پروین شیر کی نظم افسانے کے سے اسلوب میں ہے اور کامیاب ہے ۔ اکمل شاکر کا ایس ایم ایس بھی پسند آیا ۔ شبا نہ یوسف نے’ پوسٹ ماڈرن ازم ‘ کمال کی نظم لکھ دی ہے ۔کئی مر تبہ پڑھی۔فکر وہ بھی خا لص فکر کو جذبوں میں گوندھ کرلفظوں کے پیڑے بنائے اور ایسے امیج پکائے’’ جب جب جھوٹ ہوا دھرتی کی کوکھ میں بنجر پن بو تی ہے؍ تشنہ سچائی جھوٹ سرا ؤں میں رو تی ہے ؍۔۔گہرے‘ پر اسرار سمندرصحرا بن جاتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔نظم ’’اور سچ تو یہ ہے کہ ‘‘ الفاظ کے ساتھ گریز کر تی ہے اپنے انجام کی جا نب فکر اور جذبے کے ملاپ کے علا و ہ اس نظم میں مجرّد فکر کی خارجی ٹھوس حقائق سے متصادم بھی ہوتی ہے اور ہم آمیز بھی ۔استعا رے رمزیت سے مملو ہو کرمعنویت اور ابلا غ کا جا دو جگا تے ہیں۔ستیہ پال آنند کی نظمیں تو اتنی عجیب ہیں کہ ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔اس میں اسلوب کی ڈراما ئیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے یا امیجزاپنا کام دکھا تے ہیں صاف نہیں کھلتا ۔پتہ نہیں کس طرح یہ شخص اس طرح کی شاعری کرتا ہے اور پھر بھی زندہ ہے۔اسکو تو اپنی شا عری کی آ گ میں کبھی کا جل مرنا تھا ۔ احمد ہمیش کی شاعری اوور انٹلکچوالا ئز ڈ ہوتی جا رہی ہے ۔ یہ میرا خیال ہے مجھے اپنے اس خیا ل پر اپنی حد تک اصرار ہے دوسروں تک نہیں سو نارا ض نہ ہو ا جا ئے ۔سہیل احمدصدیقی،سلطان جمیل نسیم،ڈاکٹر شفیق انجم ،یونس خان،اقبال حسن آ زاد،رفیق شاہین، کاوش عبا سی، سعید شباب صاحبان کا شکر گزار ہوں میری تحریروں کے مطا لعے کے لئے وقت نکا لااور ہمت افزائی فر ما ئی۔ ۔جناب سہیل احمد صدیقی سے دست بستہ عرض کروں گا کہ ’با لر ا ست ‘ عر صۂ د راز سے اردو کا ہو چکا۔یوں بھی ’ برا ہ را ست ‘ سے زیا دہ بے ساختہ اور بولتا ہو ا لگتا ہے ۔ موصوف نے جو گندر پا ل پر میری تحریر کے ضمن میں یہ جو ار شاد فر مایا ہے ’’ علا وہ ازیں ان کی تحریر کا انجا م بجائے خود نقطۂ آغا ز محسو س ہوتا ہے‘‘ کسی حد تک درست ہے لیکن شا ید وہ یہ محسوس نہ کر سکے کہ میں اپنے قاری کو ساتھ لے کر جو گندر پال کو پڑ ھ رہا تھا اور آ خر میں اپنے قاری کو تنہا آ گے پڑھنے کے لئے راغب کر نا ہی میرا مقصد تھا نہ کہ روایتی مضمون نگا ری کی نہج پر چلتے ہوئے بات ختم کرنا ۔ڈاکٹر شفیق انجم نے متذ کرہ مضمون میں تو صیفی جا دو بیانی کے سا تھ تنقیدی رس کے کم ہو نے کا احسا س دلا یا ہے جس کے لئے میں ان کا شکر گزا ر ہوں لیکن میں انہیں یقین دلا تا ہوں کہ مجھ میں اور جوگندر جی میں کوئی تال میل نہیں اور نہ ہی میری تحر یر بقول احمد ندیم قاسمی ’’ خیر سگا لی تنقید ‘‘ ہے میں نے تو صرف جیسا پایا ہے ویسا دکھا یا ہے ۔پر چے کے مشمولات نے ’’لکھتے رقعہ پہ لکھ گئے دفتر ‘‘ کے تجر بے سے دو چا ر کر دیا ۔۔۔ میں کیا کرتا۔
مخلص
عبدا للہ جا وید۔کینیڈا ۱۲؍ستمبر ۲۰۰۸ء