محمد اسلم رسولپوری(جام پور)
میں جناب صادق باجو ہ کو کبھی نہیں ملا۔لیکن ا ن کی شاعری کو ایک نظر دیکھنے سے یہ احساس ہوتا ہے،کہ یہ ایک شریف ا لنفس اور انسانی اقدار کے حامل شخص کی شاعری ہے۔جو ماضی کے شاندار روایات کی نہ صرف پاسداری کرتی ہے۔بلکہ نظریاتی طور پر اس کا پرچار بھی کرتی ہے۔لیکن باجوہ صاحب اپنے نظریات کے اظہار میں کہیں بھی سطحی پروپیگنڈہ کا شکار نہیں ہوتے۔وہ ہر سطح پر شاعری کو شاعری ہی رہنے دیتے ہیں۔اور اپنے تمام خیالات کو بھر پور تخلیقی انداز میں برتتے ہیں۔
ان کی نظریاتی فکر میں انسانی توقیر کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔وہ انسانی عظمت کی بحالی کے خو اہشمند ہیں ۔اور انسان کے انسان پر ظلم پر کڑھتے ہیں ۔اور انسان کی انا پرستی پر خود کو دکھی محسوس کرتے ہیں۔اور اس طرح کی انسانی کمزوریوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔اور ایسی کمزوریوں کواعلا انسانی اقدار میں بدلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
باجوہ صاحب بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔تاہم ان کے مجموعہ کلام ـ میزان شناسائی میں انانیت کے نام سے ایک نظم شامل ہے ۔اور پا نچ کے قریب قطعے یا رباعیاں بھی موجود ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے۔انسانی توقیر باجوہ صاحب کی شاعری کا مرکزی موضوع ہے۔
خدمت انساں کی کچھ تدبیر بھی کاش ہو اس خواب کی تعبیر بھی
حرمت توقیر انساں کر عزیز چھوڑ دے یہ نفرت و تحقیر بھی
وہ اپنی اس اچھی خواہش کے ساتھ اس بات کا دکھ بھی محسوس کرتے ہیں۔ کہٓ ا ج دنیا میں اس احسن ا لتقویم کی کوئی قدر نہیں رہی۔
قدر سگ کی تو ہے مگر انساں پس دیوار و در پسا ہی رہا
اور اس کی وجہ باجوہ صاحب کے ہاں یہ ہو سکتی ہے۔کہ وہ اپنی عظمت کو خود بھول گیا۔
اپنی پہچان بھول کر صادق در بدر خاک چھانتا ہی رہا
اور شاید اس کی انا پرستی اسے اس منزل پر پہنچا رہی ہو۔
میری انا ہی میرے راستے کا پتھر ہے اس کے دام فسوں ساز میں پھنسا ہوں میں
حصا ر ذات میں محصور کر دیا اس نے خود اپنے آپ سے دور کر دیا اس نے
جو انا کے اسیر ہوتے ہیں ان کی محور تو ذات ہوتی ہی
خود اپنی ذات کے گرداب میں پھنسا ہے بشر نصیب فرصت پرواز شش جہات نہیں
اور یہی انا پرست لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں پر ظلم ڈھاتے ہیں ۔
دستور اس جہاں کا نرالا ہے دوستو دیکھا غریب کو تو نشانہ بنا لیا
ظلم کا خوگر نئے بہروپ میں دندنا تا پھر رہا ہے بے خبر
جب بھی کم ظرف کو ملا رتبہ اس نے کیا کیا نہ پھر خدائی کی
اور شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے۔کہ انسانوں میں ایک دوسرے کا احساس ختم ہو گیا ہے۔اور اس احساس کے ختم ہونے سے محبت کے تمام بندھن ٹوٹ جاتے ہیں
دنیا میں رشتے بندھن احساس سے قائم ہیں صادق
جب یہ مالا ٹوٹ گئی پھر ہر رشتہ کملا یا ہے
مگر اس کے باوجود وہ مایوس نہیں ہوتے۔بلکہ اس ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔
جبر کے سامنے بھی سینہ سپر ہو ہو کر اپنے اسلاف کے ور ثے کو بچا رکھا ہی
اور اپنی اس جد و جہدکے نتیجے آس کی لو کوبھی سنبھالے رکھتے ہیں ۔
چراغ آ س کی لو کچھ تو ٹمٹمانے دے ہجوم یاس گریبان تار تار نہ کر
نوید صبح مسرت کے منتظر ہیں صادق چراغ آس سر شام ہیں جلائے ہوئی
پھر سلاسل کی صدا اٹھی جنوں کی خیر ہو پھر نوید فصل گل باد صبا لائی تو ہی
اور اس طرح وہ اپنی اس تمنا پر قائم رہتے ہیں جو میزان شناسائی کا آغاز بھی ہے۔
بانٹیں دکھ پائیں سکوں امن و اماں ہو ہر سو عرصہء دہر ہو میزان شناسائی کا
باجوہ صاحب کا انسانی تجربہ اورمشاہدہ بھی بڑا گہرا ہے۔حقیقتا وہ انسانی فطرت سے مکمل طور پر آشنا ہیں۔
انسانی مسرت بڑی محدود ہوتی ہے۔مہاتما بدھ نے کہا تھا یہ دنیا دکھوں کا گھر ہے۔باجوہ صاحب کا تجربہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔ہندی زبان پر قدرت کے اظہار کے ساتھ وہ اپنے اس تجربے اور مشاہدے کو اس طرح بیان کرتے ہیں ۔
دکھیارے من کی بات نہ کر ـدکھیارا کون نہیں جگ میں کچھ سندر سپنوں کے پیچھے دکھ درد بسیرا کرتے ہیں
غم دو جہاں کو صادق کہاں بانٹنے چلے ہو یہ جہاں ہے پر دکھوں سے رہا دل غموں کا مارا
چند لمحات مسرت غنیمت ہیں صادق ساعت سعد تو محدود ہوا کرتی ہے
انسانی فطرت کا تجزیہ ان کی شاعری میں ہمہ پہلو ہے۔اور اس کا مختلف اظہار جگہ جگہ ملتا ہے۔عام انسانی فطرت کا تقاضا ہے۔کہ اس کا عشق اور شوق منزل کی تلاش میں جگہ جگہ اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے۔جیسا کہ غالب نے کہا ہے۔
دیر و حرم آئینہ ء تکرار تمنا واماندگیء شوق تراشے ہے پناہیں
باجوہ صاحب اس کو اپنے انداز میں یوں بیان کرتے ہیں ۔
کیا انتہائے شوق تھی دیدار کے لئے ہر راہگزر کو اپنا ٹھکانہ بنالیا۔
بو علی سینا کا قول ہے۔جو انتقام کی سوچتا رہتا ہے وہ اپنے زخم ہرے رکھتا ہے۔ہمارا شاعر اس تجربے کو یوں بیان کرتا ہے۔
لمحہ لمحہ سکوں نہیں ہوتا جب عداوت کی بات ہوتی ہی
انسان جفائیں یاد رکھتا ہے مگر وفائیں بھول جاتا ہے۔باجوہ صاحب کا شعر ملاحظہ ہو۔
جانے دستور زمانے کا ہے کیسا صادق یاد آتی ہے جفا خوئے وفا جاتی ہے
اے۔کے بروہی نے لکھا ہے ۔کہ دولت مند آدمی بد قسمت ہوتے ہیں ۔وہ انسانی بصیرت کو کبھی نہیں پا سکتے۔باجوہ صاحب کے ہاں اس کا اظہار اپنے طور پر اس طرح ملتا ہے۔
راز حیات و مرگ سے کب آشنا ہوئے نشہ تھا اقتدار کا ایسے خدا ہوئی
اپنی قلبی واردات تو ہر شخص جانتا ہے مگر محبوب کی قلبی واردات سمجھنا مشکل بات ہے۔کیونکہ محبوب اسے چھپانے اور عاشق کو فریب دینے کا ماہر ہوتا ہے۔مگر باجوہ صاحب محبوب کے دکھوں کا بھی ادراک رکھتے ہیں ۔
بے چینیاں سمٹ کے نگاہوں میں آ گئیں منظر کسی کی آنکھ کا کتنا اداس تھا
کوئی کہے نہ کہے کچھ سبب تو ہے ورنہ وہی نظر جو قیامت تھی سوگوار ہے کیوں
اور محبوب کے دکھوں سے ہمدردی رکھنے کے باوجود وہ اس کے خود ساختہ بہانوں کو بھی خوب سمجھتے ہیں۔
قول و قرار رسم وفا کچھ نہ کر سکے ہر بار اس نے بہانہ بنا لیا
شاید اس بات سے انکار نہیں کیا جاتاکہ شاعر کے اپنے ذاتی تجربے اور مشاہدے اس کی شاعری کے لئے مواد مہیا کرتے ہیں۔باجوہ صاحب کے بعض اشعار ایسے لگتا ہے ان کے ذاتی تجربوں کا حصہ ہیں۔
داغ حسرت سے ملی تسکین جاں حسرتوں سے لوگ کچھ جلتے رہے
جن کو دعوی تھا رہیں گے ساتھ ساتھ وقت رخصت ہاتھ ہی ملتے رہی
دیکھنا صادق مآ ل دوستاں نار بغض و کیں میں جلتے رہے
یہاں ایسے لوگوں کے لئے شاعر کا دکھ پھر بھی شامل رہتا ہے۔جو عام طور پر وہ دوسروں کے لئے محسوس کرتے ہیں ۔
اپنے درد و غم تو باہم بانٹ لیا کرتے ہیں لوگ ہم کو دشمن کے دکھ درد نے بھی اکثر تڑپایا ہی
فکری اور انسانی تجربے کے اظہار کے لئے باجوہ صاحب نے شاعرانہ فن کو ہمیشہ اہمیت دی ہے۔ ان کی شاعری بھر پور تخلیقی رویوں کے ساتھ فنی حسن سے بھی مالا مال ہے۔جگہ جگہ آپ کو رواں اور کلاسیکی بحریں ملیں گی
کتنی دلکش حیات ہوتی ہے جب کہیں دل کی بات ہو تی ہے
غم کی تاریکیوں میں روشن تر ان کے وعدے کی رات ہوتی ہے
اس کے علاوہ جیسا کہ مندرجہ بالا اشعار سے بھی ظاہر ہے وہ اکثر اوقات چھوٹی بحریں استعمال کرتے ہیں۔
پھر سے تجدید آرزو کر لیں آئیے کچھ تو گفتگو کر لیں
زندگی کے حسین دوراہے پر کچھ تمنائے رنگ و بو کر لیں
وہ اپنے اس قدرت فن کا اظہار جگہ جگہ مختلف انداز میں کرتے ہیں ۔لفظوں کی تکرار عام طور پر طبیعت پر گراں گزرتی ہے۔لیکن باجوہ صاحب کے ہاں وہ شعر میں ایک نیا لطف پیدا کرتی ہے۔
اک قیامت کا شور تھا پہلے پھر دل کچھ ڈرا ڈرا سا رہا
جہاں پا لیا تو کچھ بھی نہیں وہ اگر کچھ خفا خفا سا رہا
سن کے روداد غم زمانے کی جانے دل کیوں بجھا بجھا سا رہا
میزان شناسائی میں کتنے موضوعات ہیں جو لکھنے کا تقاضا کرتے ہیں مگر وہ کسی اگلی نشست کے لئے ا ٹھا رکھتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میزانِ شناسائی
’’تقریباَ سوا سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب خوبصورت غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ہے اور ایک ایسے شاعر کاہے جسے اپنا شاعر ہونا یاد ہی نہ تھا۔کبھی کبھار غزلیں کہہ کر وہ گھڑے میں ڈال دیا کرتے تھے۔اب دوستوں کے اصرار پراسے ’’میزانِ شناسائی‘‘کے نام سے دلی سے چھپوا کراپنے اور ناصر صاحب کے دوستوں اور شاگردوں میں تقسیم کیاہے۔’’میزانِ شناسائی‘‘سادہ و معصوم جذبات کی معصوم سی غیر رسمی آبجو ہے۔شاعر نے لفظوں کے موتی محبت کی لڑی میں پرو کرپیش کیے ہیں اور میرے دل میں اپنے استاد کی محبت کے پھول ایک بار پھر مہکا دئیے ہیں۔‘‘
(نوٹ:استاد سے مراد پروفیسر ناصر احمد مرحوم ہیں،جن کے نام میزانِ شناسائی کا انتساب کیا گیا ہے۔ح۔ق)
ڈاکٹر ظہور احمداعوان کے کالم ’’دل پشوری‘‘اچھے انسان مرا نہیں کرتے سے اقتباس
مطبوعہ روزنامہ آج پشاور۔مورخہ ۵؍اگست ۲۰۰۸ء