جدید ادب ۱۱کے لیے شکر گزار ہوں۔مجھے حسن عباس رضا کے گوشے اور عمران شاہد بھنڈر کی تحریروں سے بہت روشنی ملی۔نثر و نظم کے انتخاب میں اگر یہ معیارقائم رہ سکا توآپ کا رسالہ عام رسالوں سے مختلف اور بہت بہتر ہو جائے گا۔اردو میں زیادہ ترپڑھنے اور لکھنے والوں کو افکار سے زیادہ دلچسپی اشخاص میں ہوتی ہے۔یہی روش گھٹیا ادب کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔ شمیم حنفی(دہلی)
آپ کے موقر جریدے کا تازہ شمارہ موصول ہوا،آپ کے افسانوں کے انگریزی تراجم پر مشتمل کتاب ہمراہ پائی۔ہر دو عنایات پر میں آپ کا احسان مند ہوں۔آپ مغربی دنیا میں سانس لیتے ہوئے مشرقی ادب و فن کی آبیاری کا گراں قدر فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔اس پر بھی میں آپ کا احسان مند ہوں۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تندرست و توانا رکھے اور آپ اسی طرح سے علم،ادب اور تہذیب کی آبیاری میں مصروف رہیں۔
فتح محمد ملک۔صدر نشین مقتدرہ۔اسلام آباد
افتخار عارف کی طرف سے رسید بنام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی
Educational Publishing House,Delhi - India.
Dear Sir,
I thankfully acknowledge receipt a copy of the following each book, published by the Educational Publishing House, Delhi:-
1. And I Wait - Haider Qureshi 2. Jadeed Adab - Issue 11
I am personally grateful for your kind gesture. These publication will certainly be a good addition in my present collection of books.
With profound regards, Sincerely, (IFTIKHAR ARIF).
جدید ادب جرمنی کا شمارہ نمبر ۱۱شائع ہو گیا
حیدر قریشی کی ادارت میں جرمنی سے شائع ہونے والے ادبی جریدہ جدید ادب کا شمارہ نمبر۱۱(جولائی تا دسمبر ۲۰۰۸ء) شائع ہو گیا ہے۔۲۶۸صفحات پر مشتمل اس شمارہ میں جدید ادب کے معمول کے مندرجات شامل ہیں۔حمدو نعت کے سیکشن میں صبا اکبر آبادی،جمیل الرحمن اور کلیم شہزاد کی نگارشات ہیں۔مضامین کے حصہ میں ڈاکٹر قمر رئیس(عبدالرحیم نشتر کی غزل میں شام کا استعارہ)،عبدالرب استاد(کرناٹک میں اردو غزل)،مبشر احمد میر(یوسفیات۔۔ایک مطالعہ)،شبانہ یوسف(سارتر کا فلسفۂ وجودیت) اور عمران شاہد بھنڈر کا طویل مکتوب شامل ہیں۔اس بار امریکہ کے نوجوان شاعر حسن عباس رضا کا گوشہ شائع کیا گیا ہے۔اس گوشہ میں فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی،احمد فراز،گلزار،کشور ناہید،افتخار عارف کے تاثرات،ڈاکٹراعجاز راہی،اشرف قریشی،حمیرہ رحمن کے مضامین،حسن عباس رضا کا اپنا لکھا ہوا ’’من آنم کہ من دانم‘‘ ، ان کی دس غزلیں اور چار نظمیں شامل ہیں۔اس گوشہ سے حسن عباس رضا کے فن کے بارے میں ایک واضح تاثر قائم ہوتا ہے۔
غزلوں کے حصہ میں صبا اکبر آبادی،انور سدید،نصرت ظہیر،تاجدار عادل،جمیل الرحمن،احمد صغیر صدیقی،غلام مرتضیٰ راہی،قاضی اعجاز محور،منظور ندیم،کاوش عباسی،جان عالم،ارشد کمال،رئیس الدین رئیس،طاہر عدیم،یعقوب تصور،عدیل شاکر،فیصل عظیم،ظفراللہ محمود،شفیق مراد،مبشر سعید اور متعدد دیگر شعراء شامل ہیں۔غزلوں کے خصوصی مطالعہ میں مظفر حنفی،اکبر حمیدی،عبداللہ جاوید،صادق باجوہ اور کلیم شہزاد کی چار سے چھ تک غزلیں شامل کی گئی ہیں۔
افسانوں کے سیکشن میں سلطان جمیل نسیم (موسم کی پہلی بارش)،سلیم آغا قزلباش(کھارے پانی کا کنوا ں ) ، شفیق انجم(میں میں)،اقبال حسن آزاد(رونے والے)،محمد حامد سراج(چوبدار)،ڈاکٹر بلند اقبال (بُو) ،جان عالم(ارشد جان کیوں نہیں آتا) اور سید علی محسن( فنکار) شامل ہیں۔جبکہ نظموں کے حصہ میں انور سدید،نیر جہاں،نصرت ظہیر،کاو ش عباسی،پروین شیر،پرویز مظفر،قاضی اعجاز محور،اکمل شاکر شبانہ یوسف اور عمران ہاشمی کی نظموں کے ساتھ ستیہ پال آنند اور فیصل عظیم کی چار چار نظمیں دی گئی ہیں۔
خصوصی مطالعہ کے تحت احمد ہمیش کی تین نثری نظمیں،عمران شاہد بھنڈر کا ایک طویل مضمون اور ڈاکٹر روبی شبانہ کا مجتبیٰ حسین کی طنزو مزاح نگاری کا سرسری جائزہ شامل ہیں۔ماہیوں کے سیکشن میں امین خیال اور امین بابر کے ڈھیروں ڈھیر ماہیوں کے ساتھ گوہر مسعود،جاوید خلجی،سعید شباب،اختر شاہ جالندھری،ریحانہ احمد،رفیق شاہین اور مبشر سعید کے ماہیے شامل ہیں۔کتاب گھر میں شفیق انجم،عدیل شاکر،غضنفر اقبال،غلام مرتضی راہی اور عشرت ظفر کی تازہ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں جبکہ حمیدہ معین رضوی،مریم رڈلی اور ہرمن ہیسے کی کتابوں پر تفصیلی مطالعہ دیا گیا ہے۔
خطوط اور ای میلز کے سیکشن میں پروفیسر شمیم حنفی،ڈاکٹر مظفر حنفی،شبانہ یوسف،سہیل احمد صدیقی،شفیق انجم، یونس خان،اشہر ہاشمی،رئیس احمد رئیس،سعید شباب،عتیق احمد عتیق،سلطان جمیل نسیم،روزنامہ انقلاب بمبئی، اقبال حسن آزاد،اقبال نوید،منظور ندیم،رفیق شاہین،ڈاکٹر انور سدید،سلیم آغا قزلباش اور کاوش عباسی کے تاثرات شامل ہیں۔جدید ادب کے شمارہ نمبر ۱۰کی اشاعت کے وقت خطوط کا سیکشن چھپنے سے رہ گیا تھا۔سو اس بار وہ مِس ہو جانے والی فائل بھی نوٹ کے ساتھ شامل کر دی گئی ہے۔ اس میں ڈاکٹر جمیل جالبی،افتخار عارف،عبداللہ جاوید،ڈاکٹر ستیہ پال آنند،دانش غنی،سعید شباب،ہانی السعید،کاوش پرتاپگڈھی،طاہر نقوی،ڈاکٹر مقبول احمد مقبول،شہپر رسول،فیصل عظیم،رئیس الدین رئیس،سلطانہ مہر،سید مزمل الدین،افتخار امام صدیقی،رفیق شاہین،نعیم الرحمن،ڈاکٹر انور سدید،ابصار عبدالعلی،اسلم رسولپوری اور عبداللہ جاوید کے تاثرات شامل ہیں۔
مجموعی طور پر جدید ادب کا یہ شمارہ اپنے سابقہ شماروں کے شاندار معیار کو قائم رکھتے ہوئے ،اس سے مزید آگے کا سفر کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ارشد خالد(اسلام آباد)
(یہ خبرانٹر نیٹ اردو فورم [email protected]سے ۸؍جون ۲۰۰۸ء کو ریلیز کی گئی)
جدید ادب کا شمارہ نمبر ۱۱نظر نواز ہوا۔تازہ شمارے کے مشمولات سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو ادب کی متعدد اصناف نظم و نثر کو مذکورہ شمارے میں جگہ دی گئی ہے تاہم انشائیہ کی عدم موجودگی نے تشنگی کا احساس دلایا۔آپ خود بھی معیاری انشائیے باقاعدگی سے لکھتے رہے ہیں،اس حوالے سے انشائیے کو ’’جدید ادب‘‘کے ہر تازہ شمارے میں جگہ ملنی چاہئے۔
آپ کے ’’سدھارتھ‘‘پر تحریر کردہ تجزیاتی مطالعے نے بعض ایسے گوشوں کو اجاگر کیا ہے جو کم از کم میرے لیے بالکل نئے ہیں۔اس قدر عمدہ تجزیاتی مطالعہ پیش کرنے پر میری جانب سے مبارکباد قبول فرمائیے۔
سلیم آغا قِزلباش(وزیر کوٹ۔سرگودھا)
حاصلِ مطالعہ،ادھر اُدھر سے،And I Wait اور جدید ادب شمارہ ۱۱ملنے کی رسید
I have received 4books from Delhi. Thank you very much. You are a brave,
hardworking and wonderful man.
مقصود الٰہی شیخ(بریڈ فورڈ،انگلستان)
تازہ شمارہ جدید ادب کا ابھی نہیں ملا ہے لیکن انٹر نیٹ پر دیکھ رہی ہوں۔ابھی پورا رسالہ نہیں پڑھ پائی ہوں لیکن جو پڑھا اُن میں شفیق انجم کا’ میں میں‘،حسن عباس رضا کی نظم’اپنے لیے ایک نظم‘اور عبدالرب استاد کا مضمون ’’کرناٹک میں اردو غزل‘‘بہت پسند آئے۔جدید ادب ہمیشہ کی طرح اعلیٰ اور معیاری ہے۔اللہ آپ کو حوصلے ، صحت اور خوشیاں عطا فرمائے اس عظیم لگن کے لیے جو بے لوث ہے۔ پروین شیر۔کینیڈا
جدید ادب کا تازہ شمارہ برادرم افتخارامام صدیقی کے توسط سے پڑھنے کو ملا۔اس سے پہلے بھی کچھ شمارے جستہ جستہ پڑھنے کے لیے ملتے رہے۔آپ منہمک مطالعے کا کس قدر سامان ایک شمارے میں یک جا کر لیتے ہیں۔تازہ شمارہ میں آپ نے بڑی نکتہ آفریں بحث کی ہے کہ ابھی نوعِ انسانی کا صرف دس فیصد IQبروئے کار آسکا ہے اور یہ کہ کئی ماورائی یا ما بعد الطبیعاتی علائق ابھی طبیعات کی فہم میں شامل ہونے باقی ہیں۔تکنالوجی نے اس سُرعت کے ساتھ کئی سربستہ ابواب کھولے ہیں اور ادراک کے نئے زاویے فراہم کیے ہیں کہ لگتا ہے تیزی سے وجدانی یا رمزی mysticافکار تک سائنسی و منطقی استدلال رسائی حاصل کرکے مطابقتیں برآمد کرنا چاہتا ہے۔حسن عباس رضا پر گوشہ سیر حاصل ہے۔غزلوں میں مظفر حنفی اور صادق باجوہ کی غزلیں تو توانا ہیں ہی،انور سدیدی اور نصرت ظہیر کی غزلیں بھی خصوصاَ پسند آئیں۔اسی طرح نظموں میں نیّر جہاں،نصرت ظہیر اور پروین شیر نے زیادہ متوجہ کیا۔
’’کرناٹک میں اردو غزل‘‘(عبدالرب استاد)ایک اچھا احاطہ ہے کہ اس میں جو شعراء شریک ہیں زیادہ تر کرناٹک کی حد تک ہی نہیں بلکہ ہندو پاک کی عصری اردو شاعری میں بھی اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ہرمن ہیسّے کے ناول’سدھارتھ‘پر آپ کا مضمون کچھ نئے اپروچس کے ساتھ اس ناول کو بارِ دگر پڑھنے کا ادّعا پیدا کرتا ہے۔مضمون ناول کو اندر سے کھنگالتے ہوئے ناول سے باہر کی زندگی ،تاریخ اور عمرانیات و نفسیات سے ہم آہنگ کرنے کی ایک کامیاب اور ذہین کوشش ہے۔جوگندر پال صاحب کے اقتباسات بھی شمارے کو معنوی طور پر مزیّن کر رہے ہیں۔ویسے پورا شمارہ ہی آپ کی دقتِ نظر،ادبی وساطت،ذہانت و ریاضت کا غمازہے۔اس کے لیے دلی مبارکباد ۔ عبدالاحد ساز(ممبئی)
’جدید ادب‘ کا شمارہ ۱۱صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے یہ شمارہ پر کشش ہے۔ ’گفتگو‘ کے تحت آپ کی مختصر مگر جامع تحریر پسند آئی۔غلام مرتضیٰ راہی کے شعری مجموعہ ’لاشعور‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ ’’ یہ اُس اثباتِ حق کا حوالہ بھی ہے جو نفی سے شروع ہوکر اثبات تک پہنچتا ہے۔‘‘ میرے خیال میں اس جملے کا اطلاق خود آپ کے اداریے پر بھی ہوتا ہے۔
عمران شاہد کی مفصل اور مدلل تحریر ہر لحاظ سے لائق مطالعہ ہے۔بلا شبہ مصنف کا لہجہ کہیں کہیں پر کچھ زیادہ ہی درشت ہوگیا ہے ، تاہم تحریر کی افادیت (بلکہ حقانیت) سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور اس کی بازگشت اردو دنیا میں دیر اور دور تک سنی جاسکے گی۔ حیرت ہے کہ ۔۔۔۔ جیسا جہاں دیدہ اور زیرک نقاد اس دھوکے میں کیسے آگیا کہ سرقے کا یہ معاملہ ہمیشہ صیغۂ راز میں ہی رہے گا ! ایسا لگتا ہے کہ ۔۔۔۔ صاحب نے اردو والوں کو کچھ زیادہ ہی Underestimateکرلیا اور دھوکا کھا گئے۔ ایک طرف عمران شاہد بھنڈر کی صریح،واضح اور مدلل تحریرہے(جس کا تحقیقی اعتراف محترمہ شبانہ یوسف (برمنگھم) نے اپنے مراسلے میں کیا ہے) تو دوسری جانب ’شان استغناء‘ سے پُر خاموشی، ․․․․․․اب ایسے میں سرقے کی بات کو کیونکر نظر انداز کیا جاسکتا ہے! اس سلسلے میں کاوش عباسی کے مراسلے کے ساتھ آپ نے جو ادارتی نوٹ لگایا ہے اس کی برجستگی مجھے بہت پسند آئی۔ در اصل آپ نے ہم اردو والوں کی دکھتی رگ پر انگلی رکھ دی ہے۔ابھی کچھ دنوں پہلے کی بات ہے گیان چند جین کی کتاب’ایک بھاشا ،دو لکھاوٹ،دو ادب‘ پر اردو عوام الناس نے صدائے احتجاج بلند کیا تو چند ایک کو چھوڑ کر ہمارے بیشتر ادیبوں نے اس معاملے میں( تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے) ایسی’’ پر اسرار خاموشی‘‘ اختیار کر لی کہ اس کی گونج آج تک سنی جاسکتی ہے ۔ اور اسکے بنیادی اسباب وہی تھے جن کا ذکر آپ نے اپنے ادارتی نوٹ میں کیا ہے۔ مجتبیٰ حسین کی مزاح نگاری پر ڈاکٹر روبی شبانہ کے مضمون کا ایک جملہ اس طرح ہے : ’’ ویسے تو عام طور پر مجتبیٰ حسین کی عبارت مستحکم اور مربوط ہوتی ہے لیکن کہیں کہیں غیر فصیح اورمتروک الفاظ کا استعمال اور انگریزی لفظوں کے غلط تلفظ عبارت کی روانی میں مخل ہوتے ہیں‘‘
اوّل تو یہ کہ طنز و مزاح میں بسا اوقات متروک اور غیر فصیح الفاظ سے ایسی مطلوبہ کیفیت پیداہو جاتی ہے جو ان کے بغیر ممکن نہیں،اس لئے مزاح نگاری میں ایسے الفاظ کا استعمال( موقع اور محل کے حساب سے)معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ دوئم یہ کہ مذکورہ ’غیر فصیح‘ اور’ متروک ‘الفاظ پر مشتمل مجتبیٰ حسین کے چند جملے بطور مثال پیش کئے جاتے تو مجھ جیسے قاری کے لئے کسی نتیجے پر پہنچنا آسان ہوتا !یوں تو سبھی افسانے اپنی جگہ ٹھیک ہیں لیکن سلطان جمیل نسیم(موسم کی پہلی بارش)، سلیم آغا قزلباش(کھارے پانی کا کنواں)اور اقبال حسن آزاد(رونے والے) بطور خاص پسند آئے۔شعری حصہ بھی خاصا وقیع ہے۔غزل کے کچھ اشعار جو بطور خاص پسند آئے
اب تجاوز بن گیا معمول ، ورنہ مدتوں اپنی اپنی حد میں شہری اور بیابانی رہے
چولہے جلتے رہیں سر سبز درختوں کے طفیل خشک بھی کوئی کوئی ڈال رہنی چاہیے ہے ( غلام مرتضیٰ راہی)
کیوں اتنے چھوٹے خود کو نظر آرہے ہیں ہم یارب یہ کس مقام پہ پہنچا دیا ہمیں
نہ ایسے سست ہوں بادل کہ فصلیں سرد ہو جائیں نہ موجوں کو سنامی جیسی بے حد تیز گامی دے (مظفر حنفی)
تم اپنے عکس میں کیا دیکھتے ہو تمھارا عکس بھی تم سا نہیں ہے (عبد ا للہ جاوید)
ارشد کمال(دہلی)
جدید ادب ،جرمنی کا شمارہ نمبر گیارہ میرے ہاتھوں میں ہے۔اس کو مکمل طور پر پڑھنے میں تو چھ ماہ ہی لگ جائیں گے ۔مگر اپنی فوری دلچسپی کی تحریریں میں نے پڑھ لی ہیں اور ان کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
ٹائیٹل پر دیا ہوا ماہیا کسی اندرونی دکھ کا اظہار کرتا ہے شاید کسی پیارے کے بچھڑنے کا نتیجہ ہو۔آپکا اداریہ ایک اہم موضوع کے متعلق ہے ۔یہ اہم موضوع صدیوں سے اہل قلم ۔فلاسفرز اور صوفیا کے درمیان زیربحث چلا آرہا ہے۔کہ حقیقت کے عقب میں کوئی اور حقیقت بھی ہے یا نہیں۔آپ نے اتنے پیچیدہ خیال کو بہت ہی مختصر تحریر میں یوں سمیٹا ہے ۔کہ نقلی مال کا مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اصل بھی موجود ہے۔لیکن میرے لئے دکھ کی بات یہ ہے کہ میں ابھی تک اس مسئلہ پر پوری طرح واضح نہیں ہوں اس لیئے اپنی طرف سے کوئی حتمی بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں اس پر پھر کبھی سہی۔
مضامین میں ہر ایک مضمون اپنے بارے میں بات کرنے کا تقا ضا کرتا ہے لیکن میں سارتر سے اپنی دلچسپی کی وجہ سے اس مضمون کی طرف سب سے پہلے متوجہ ہوا ۔مگر اس پر ایک محترم خاتون کا اسم گرامی دیکھ کر اکتاہٹ پیدا ہوئی۔کیونکہ میرا خیال تھا کہ فلسفہ جیسے ادق موضو ع پر ایک خاتون کیا لکھ سکتی ہے۔در اصل میرے ذہن میں یہ تعصب میرے بیٹے وقار اسلم خان کی وجہ سے پیدا ہوا جو بہاؤالد ین زکریا یونیورسٹی میں فلسفے کا استاد ہے اور اپنے مضمون پر کمانڈ بھی رکھتاہے۔اس کا خیال ہے کہ فلسفے کے میدان میں بہت ہی کم خواتین نے کوئی اہم کام کیا ہے ۔(حالانکہ اس کی کلاس میں لڑکوں کی نسبت لڑکیاں زیادہ داخلہ لیتی ہیں )بہر حال اس مضمون کو میں نے بڑی بے دلی کے ساتھ پڑھنا شروع کیا۔مگر آہستہ آہستہ مجھے احساس ہوتا گیا کہ باوجود غیر ضروری تفصیل کے محترمہ کو فلسفے سے گہری شناسائی ہے۔ سارتر سے میری دلچسپی اس کی الجزائر کی آزادی کے حق میں جدوجہد سے پیدا ہوئی تھی کیونکہ یہ معاملہ ایک بڑی’’ میں‘‘ سے تعلق رکھتا تھا ۔جس میں سارتر کی اپنی چھوٹی’’ میں‘‘ بڑی’’ میں‘‘ میں ضم ہو گئی تھی اور اس کے فلسفے کی سچائی کو ظاہر کر رہی تھی کہ جو اپنا انتخاب ہو تا ہے وہ انسانوں کی بھلائی کا انتخاب بھی ہوتا ہے۔میرے خیال میں سارتر کے انتخاب کی بات کسی کار کے انتخاب کی بات نہیں بلکہ زندگی یا کسی مقصد کے انتخاب کی بات ہے جو اپنے ذاتی انتخاب کے ساتھ عالم انسانیت کے انتخاب کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔اگر یہ انتخاب اپنی ذات کے ساتھ جڑا ہوا تھا تو پھر یہ کیسے ممکن ہوا کہ سارتر ایک بڑے مقصد کے ساتھ جڑ گیا ۔میرے خیال میں سارتر کبھی سماجی صورت حال سے الگ ہو کر انتخاب کی بات نہیں کرتا وہ تو سوشلزم کی بات کرتا ہے جس میں ساری بات سماجی اور معاشی ہے۔ اور بڑے ’’میں ‘‘کی بات ہے ویسے آخر میں محترمہ نے بڑے دھیمے انداز میں سارتر کے فلسفے میں سماجی شعور کی بات تسلیم بھی کی ہے ۔ سارتر کے نزدیک انتخاب کی آزدی کا مسئلہ بڑا تکلیف دہ ہے اور وہ اس لئے ہے کہ کار کے انتخاب کا مسئلہ نہیں ہوتا ۔
میں نے فلسفہ پر عبور کے لئے اس مضمون کے بعد ان کی دوسری تحریروں کو پڑھنے کی کوشش کی جن میں ان کی نظم پوسٹ ماڈرن ازم بھی شامل ہے ۔اس نظم کے پڑھنے سے اندازہ ہوا کہ کہ فلسفے سے ان کا بہر حال ایک تعلق ہے۔یہ نظم فنی حوالے سے اچھی نظم ہونے کے علاوہ پوسٹ ماڈر ن ازم کا اچھے حوالے سے پوسٹ مارٹم بھی کرتی ہے۔خطوط میں ان کا خط بھی شامل ہے ۔جو ان کے فلسفیانہ رغبت کی تائید کرتا ہے۔ماشاء اللہ۔جی چاہتا ہے یہ رسالہ میں اپنے بیٹے کو بھیج دوں۔ویسے ُاسے عمران شاہد بھنڈر کے مضا مین میں بھی دلچسپی ہے۔
آپ کے نام عمران شاہد بھنڈر کا خط بڑا تفصیلی ہے۔اور ذہنوں کے بہت سے گوشوں کو منور کرتا ہے۔وہ ادب میں پھیلے ہوئے بہت سے گمراہ کن خیالات کی تردید کے لئے سماجی حوالوں سے حقیقت تک رسائی میں بھی مدد کرتا ہے۔بودلیئر اور میلارمے کی تخلیقات میرے لیے ہمیشہ کئی سوالوں کو جنم دیتی رہی ہیں ۔اس تحریر نے مجھے ان کے سمجھنے میں مدد دی ہے۔
حسن عباس رضا کا گوشہ خوب ہے۔اپنے حوالے سے ان کا مضمون من آنم کہ من دانم ان کی زندگی کے بعض اذیت ناک گوشوں کو وا کرتا ہے ۔پیارے ملک پاکستان میں کیا کیا لوگ مارشلاؤں کے دوران بھوگ بھگتتے رہے ہیں ۔بلا شبہ وہ اچھا شاعر ہے ۔اس کی غزلوں کا انتخاب بھی خوب ہے ۔اگرچہ کچھ کلام جدید ادب میں پہلے چھپ چکا ہے۔مجھے اس شعر نے اس کے قیام پاکستان کی یاد دلائی ۔ممکن ہے شاعر کے نزدیک یہ شعر کی Deconstructionہو۔ آنکھوں سے کوئے یار کا منظر نہیں گیا حالانکہ دس برس سے میں اس گھر نہیں گیا
شاندار غزلوں کے ساتھ اس کی نظموں میں نئے نینوا کا المیہ اور وزیر خانم پسند آئیں۔کئی دیگر وجوہات کے ساتھ اس کی شاعری کا سہل ممتنع ہونا بھی عام قارئین میں پسندیدگی کا ایک سبب ہے۔
جناب صادق باجوہ سے پہلے سے متعارف ہوں۔انہوں نے اپنے مخصوص رنگ کو قائم رکھا ہے۔
خود غرض انسان سے صادق کبھی فیض پانے کی نہ رکھنا آرزو
غزلوں اور نظموں میں میرا ایک پرانا دوست کاوش عباسی بھی نظر آیا۔ستر کی دہائی میں ہم ڈیرہ غازیخان میں اباسین ہوٹل پر ایک ساتھ بیٹھتے تھے۔وہ ان دنوں لاہور میں پڑھتے تھے۔اور پکے مارکسسٹ تھے اور ترقی پسند شاعری کرتے تھے۔اب بھی جدید رنگ میں مجھے اس کی خوشبو محسوس ہوئی۔ان دنوں وہ اتنے مصلحت پسند نہیں تھے جتنے اپنے خط میں دکھائی دئیے ۔ ان کے خط کی نسبت آپ کا فوری جواب زیاد ہ زور دار ہے ۔نظر آتا ہے سچائی کے اظہار میں آپ لوگوں کی ناراضگیوں کی فکر نہیں کرتے۔افسانوں کا حصہ بھی اچھا لگا ہے ۔مگر رونے والے کا ذکر میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میری بھی ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ میں اپنے مرنے کی بعد کا منظر دیکھوں۔افسانہ حقیقی زندگی کے عین مطابق ہے۔دفنانے کے بعد گھر کا منظر بڑا خوفناک ہے ۔اب میں نے یہ منظر دیکھنے کی خواہش ترک کر دی ہے۔اس لئے یہ افسانہ میرے لئے اچھا ثابت نہ ہوا ہے۔
ایک بارپھر عمران شاہد بھنڈر کا مضمون سرقہ کے بارے میں پڑھنے کو ملا ۔انہوں نے اس مضمون میں اس سرقے کے بارے میں مزید شواہد پیش کئے ۔حا لانکہ بات تو پہلے ہی مضمون کے ساتھ واضح ہو گئی تھی۔اور شاید عمران صاحب کو اس بات کا علم ہو گا کہ پاکستان اور بھارت میں یہ کوئی نئی بات بھی نہیں ۔یہاں تو شروع سے یہ کام چلا آرہا ہے ۔آپ انیس جیلانی اور اس کے باپ کی مبارک اردو لائبریری کو تو جانتے ہیں ۔انیس جیلانی نے اپنے باپ کے نام نوازش نامے کے ساتھ جو خط چھاپے ہیں ۔اس میں نوح ناروی صاحب بھی اپنا ایک دیوان فروخت کرنے لئے پیشکش لئے بیٹھے ہیں ۔اس طرح کی ادبی جعل سازی کے خلاف تو آپ نے ایک لمبی قلمی جدوجہد بھی کی ہے۔آپ کو معلوم ہے کہ پنجاب یونیورسٹی لاہور اور زکریا یونیورسٹی ملتان کے کئی پر وفیسر و ں (لیکچرار نہیں) کے پی ۔ایچ ڈی کے تھیسیزچوری کے نکلے ہیں۔جو انہوں نے باہر کے ملکوں میں جا کر سرکاری خرچوں پر چوری کئے تھے۔ایسے پروفیسروں میں کئی برطرف ہو گئے ہیں اور کئی کے خلاف کاروائیاں چل رہی ہیں۔میں یہ بھی ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ بہت سے پرفیسروں کی کتابیں جن پر ان کے نام چھپے ہیں ان کے ایم۔ اے ۔ایم۔فل اور پی ایچ ڈی سٹودنٹس کی تحقیقات کا نتیجہ ہیں۔
اس بار میں نے ماہیوں کو بڑی توجہ کے ساتھ پڑھا ہے ۔ماہیوں کے بارے میں آپ سے زیادہ کون جانتا ہے ۔آج کا ماہیا آپ کی جدو جہد سے اس منزل پر پہنچا ہے۔ماہیا ہماری دھرتی کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ مگر آج کے ماہیے کے موضوعات پہلے سے کہیں زیادہ وسیع ہیں۔آج کا ماہیا سیا سی صورت حال سے بھی منسلک ہو گیا ہے۔اس موضوع پر امین خیال کے ماہیے اچھے لگے ۔
سنگل تو نہیں ٹوٹے۔۔۔گوروں سے چھوٹے۔۔۔۔۔کالوں سے نہیں چھوٹے
رفیق شاہین کا ماہیا گیت بھی اچھا لگا۔تفصیلی مطالعے میں ہرمن ہیسے کے ناول سدھارتھ پر آپ کا تفصیلی مضمون دلچسپی کا سبب بنا۔مجھے آپ کے خیالا ت سے عام طور پر اتفاق ہے۔اس میں جن تین بنیادی باتوں پر زور دیا گیا ہے اور جیسا کہ آپ نے بھی لکھا ہے وہ سوچنا ۔انتظار کرنا اور فاقہ کرنا ہے جو ان مراحل کو طے کرنے کے لئے ضروری ہیں ۔مگر میرے خیال میں اس میں ایک اور عنصر کا اضافہ کرنا ضروری ہے اور وہ ہے صبر۔
میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ سدھارتھ کا گوتم بدھ سے الگ ہو جانے کا مسئلہ ہے آخر وہ اتنی بڑی شخصیت سے کیوں الگ ہو گیا جبکہ ایک دنیا اس کے سحر میں گرفتار تھی ۔میرے خیال میں گوتم نروان حاصل کرنے کے دوران جس تجربے سے گزرا وہ دوسروں کو اس تجربے سے نہیں گزار سکتا تھا ۔وہ صرف اس کو بیان کرسکتا تھا یا اس کے کے ثمرات بتا سکتا تھا۔ سدھارتھ اس بات سے مطمئن نہیں تھا۔وہ اس تجربے سے خود گزرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے اس نے سب پاپڑ بیلے۔ملاح کا تجربہ ا ور طرح کا تھا سچائی تک رسائی کا طریقہ صرف ایک نہیں جو گوتم نے اختیار کیا بلکہ سچائی تک رسائی تو دریا کے کنارے بیٹھ کر اس کی خاموشی ،شور اور وسعت کا مشاہدہ کر کے بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسلم رسول پوری(جام پور)ؒٓا
اور تحریریں بھی لکھنے کا تقاضا کر رہی ہیں َلیکن کچھ باتیں دوستوں کی بھی سننی چاہئیں۔ اسلم رسول پوری(جام پور)
آپ پہلے جدید ادب سے نوازتے تھے،اب اس نوازش کا سلسلہ بند ہے۔آخر اس رسالہ سے میرا تعلق بھی رہا ہے۔کل فون پر قمر رئیس صاحب سے گفتگو ہو رہی تھی،انہوں نے تازہ شمارہ کے بعض مندرجات کی بے حد تعریف کی،خاص طور پر مابعد جدیدیت کے حوالے سے۔اس لیے ان مضامین کو پڑھنے اور جدید ادب کو پانے کا اشتیاق جاگ اُٹھا ہے۔ ڈاکٹر علی احمد فاطمی(الٰہ آباد)
ہمارے زمانے میں اردو کے دوچار ادبی پرچے ایسے ضرور ہیں جو بساط بھر دنیا کے مختلف ممالک میں جارہے ہیں اور پڑھے جارہے ہیں لیکن پاکستان سے ایک رسالہ یا کتاب اگر باہر بھیجا جائے تو اس پر ڈیڈھ دوسو روپے خرچ ہوتے ہیں سو پرچے باہر تو جا رہے ہیں مگر بہت محدود تعداد میں حیدرقریشی ایک ذہین تخلیق کار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلٰے درجے کا منتظم اور وسیع معلومات رکھنے والا انسان ہے اس لیے اس نے ان سب عوارض کا علاج سوچ رکھا ہے ’’ جدید ادب ‘‘ جرمنی میں حیدر قریشی کے ہاتھوں مرتب ہوتا ہے ،بھارت میں چھپتا ہے اور بھارت سے ہی پاکستان میں آتا ہے اوروہیں سے دوسرے ممالک کو بھیجا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ بقول حیدر قریشی بھارت میں اشاعت پر دنیا بھر کے اخراجات پاکستان کی نسبت بہت کم ہیں یہی وجہ ہے کہ جدید ادب کے صفحات پر دنیا بھر کے ادیبوں شاعروں کی تخلیقات نظر آئیں گی ۔اتنی زیادہ کہ یقینا پاکستان کے دوسرے کسی ادب رسالے میں اتنے نام نہیں ۔اس سے ظاہر ہے کہ یہ پرچہ اردو دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچتا ہے اور پڑھا جاتا ہے یوں یہ کہا جاسکتا ہے کہ جدید ادب ایک انٹرنیشنل اردو رسالہ ہے جس میں چھپنا خصوصاً اہمیت رکھتا ہے اور پھر یہ شاید واحد پرچہ ہے جو سرمۂ مفت نظر ہے اور کسی کی چشم خریدار پر احسان کابوجھ بھی نہیں ڈالتا ۔یوں حیدر قریشی کو جتنی بھی داد دی جائے وہ اس کا مستحق ہے ۔
ان دنوں جدید ادب کارواں شمارہ شائع ہو کر آیا ہے جو نہایت اعلٰی گٹ اپ کے ساتھ تقریباً پونے تین سو صفحات پر مشتمل ہے اداریہ ذاتِ باری تعالی کے اثبات پر ایک محکم دلیل کی حیثیت رکھتا ہے جو بے حد منطقی اور سائٹفک ہے اور وہ دلیل کائنات اور اس کے روز شب کاسلسلہ ہے جسے سب مشاہدہ کر سکتے ہیں ۔ادارت کے لیے کسی بڑے علم و فضل کی ضرورت نہیں ،یوں یہ اداریہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ پرچہ انٹرنیٹ پر بھی دیکھا جاسکتاہے جو اسکی رسائی کو اور بھی وسعت عطا کر دیتا ہے۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ حیدر قریشی اردو ادب کی تشہیر و اشاعت کے لیے کس قدر محنت او ر اخلاص سے کام کر رہا ہے ۔حسن عباس کا گوشہ خصوصی توجہ چاہتاہے۔حسن عباس رضا ایک خوبصورت انسان اور خوبصورت شاعر ہے ۔۔۔۔نثری نظم کے طور پرایک چھوٹا سا گوشہ احمد ہمیش کے لیے ہے۔ ستیہ پال آنند جی کی چار نظمیں ہیں۔مظفر حنفی۔اکبر حمیدی۔عبداللہ جاوید،صادق باجوہ ،کلیم شہزاد کی دس، چار، چار، چھ، چھ غزلیں بھی ایک طرح سے خصوصی گوشہ ہے ۔ڈاکٹر انور سدید پر چے کے ہر گوشے میں موجودہیں۔اس لیے بہت نمایاں ہیں ۔صبا اکبر آبادی،استاد کا درجہ رکھتے ہیں انکی حمدیں شریک اشاعت ہیں ۔غزلوں میں صبا اکبر آبادی،انور سدید ،تاجدار عادل، برادرم احمد صغیر صدیقی ،قاضی اعجاز محور کے ہمراہ ایک طویل مخزنِ لطف و عنایت ہے۔ امین خیال کے ماہیوں پر ڈاکٹر گوہر مسعود کا مقالہ ہے ۔
ماہیا کو حیدر قریشی نے جس بلندی پر پہنچایا تھا اب وہ چل نکلا ہے حتیٰ کہ جدید ادب کے ٹائٹل پر بھی نظر آتاہے افسانے میں سلیم آغا قزلباس ،سلطان جمیل نسیم ،محمد حامد سراج ،جان عالم کے علاوہ اور بھی دوست نظر آر ہے ہیں خصوصی طور پر گذشتہ شمارے پر زبردست ردِعمل ہے گذشتہ شمارے میں میرے لیے ایک مبسوط گوشہ شائع ہواتھا جس پر شاندار ردِعمل ہے۔ مَیں اپنے ان تمام محسنوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے میرا گوشہ توجہ سے پڑھا اور اس پر اپنی قیمتی آرا سے میری عزت افزائی فرمائی۔
حیدر قریشی کی غزل مَیں ڈھونڈرہا ہوں اور نہیں مل رہی۔اتنے بھر پور اور خوبصورت تخلیقات کے پرچے پر حیدر قریشی تمہارے لیے دلی دعائیں اور پیار ۔
تم سلامت رہو ہزار برس ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
مجھے یقین ہے تمہارا نام اور کام اتنے عرصے کے لیے ضرور زندہ رہے گا۔ اکبر حمیدی۔اسلام آباد
صوری اور معنوی ہر دو اعتبار سے شمارہ ۱۱سابقہ شماروں پر سبقت لے گیا ہے۔امریکہ اور یورپ سے اجراء ہونے والے جرائد میں ابھی تک میں نے ایک بھی ایسا جریدہ نہیں دیکھا جو اس کی ہمسری کر سکے۔اس عرصے میں اس کی بہت سی تخلیقات کا بار بار مطالعہ کیا ہے اور ہر بار ان میں بسی جمالیاتی کائنات کے خوشگوار اور سحر انگیز مناظر سے دل و دماغ کو فرحت و تازگی کا احساس ہوا ہے اور سیراب و شاداب ہو گیا ہوں حسن عباس رضا منفرد اور معتبر شاعر ہیں۔بڑی خوشی کی بات ہے کہ آپ نے اس بار ان پر بڑا وقیع اور خوبصورت گوشہ شائع فرمایا ہے۔دیگر مختلف النوع مضامین کے حصہ میں ڈاکٹر قمر رئیس،عبدالرب استادؔ،مبشر احمد میر،شبانہ یوسف اور عمران شاہد بھنڈر نے اپنے اپنے موضوعات کے ساتھ انصاف کیا ہے۔افسانوں کے گوشے میں آٹھ افسانے ہیں اور ایک بھی فارمولہ کہانی نہیں ہے۔یہ آٹھوں کہانیاں پڑھ کر شدت سے احساس ہوتا ہے کہ افسانے ہوں تو ایسے۔سلطان جمیل نسیم،سلیم آغا قزلباش،شفیق انجم،اقبال حسن آزاد،محمد حامد سراج،ڈاکٹر بلند اقبال،جان عالم،اور سید علی محسن میں ایک کو دوسرے پر ترجیح دینا بڑا مشکل کام ہے۔
تفصیلی مطالعے کے تحت حیدر قریشی نے (ہرمن ہیسے کے ناول)’’سدھارتھ‘‘پر اچھے اور کمال کے تاثرات پیش کیے ہیں۔یونس خاں نے(مریم رڈلے کی) ’’طالبان کی قید میں‘‘کی تحیر خیز اور لرزہ انگیز روداد بیان کر دی ہے۔ نصرت ظہیر،پروین شیر اور نیر جہاں کی نظمیں دل کی گہرائیوں تک پہنچتی ہیں۔ماہیوں کے باب میں رفیق شاہین کی ماہیا نظم،اور سعید شباب،امین خیال،ریحانہ احمد،ڈاکٹر گوہر مسعود اور مبشر سعید کے ہمہ جہت و ہمہ گیر ماہیے اپنے بطون میں آفریدہ و نا آفریدہ جہانوں کے نظر افروز اور روح پرور منظر اپنی بہار خوب دکھا رہے ہیں۔
رفیق شاہین۔علی گڑھ
شمارہ نمبر ۱۱کے مشمولا ت توقع سے بڑھ کر ہیں۔ٹائٹل پر آپ کا ماہیا لوک تہذیب کے اس ورثے کی یاد دلاتا ہے جس میں پہلی سطر صرف قافیہ پیمائی کے لیے ہی استعمال نہیں کی جاتی بلکہ اس کا براہ راست تعلق آخری دو سطروں کے تصویری مفہوم سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔
بچپن میں ہم سب پنجابی میں فی البدیہ ماہیے ’’بنایا‘‘ کرتے تھے،لیکن یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ مصرع اولیٰ صرف قافیہ ملانے کے لیے ہی نہیں ہوتا۔حمد و نعت میں صبا اکبر آبادی کی دونوں حمدیہ نظمیں انہی کے مخصوص انداز میں ہیں۔ سلطان جمیل نسیم میں سب پدرانہ خوبیاں موجود ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صبا صاحب کی یاد کو زندہ رکھنے کے لیے ہر رسالے میں اپنی تخلیق بعد میں اور ان کی پہلے بھیجتے ہیں۔ اپنے والد ماجد کا قرض ان سے بہتر کوئی کیا ادا کرے گا؟ ان کی فرمائش پر میں نے صبا صاحب کے ’’خونناب‘‘ میں مشمولہ مراثی پر ایک سیر حاصل مضمون (چوبیس صفحات) لکھا تھا، جو ابھی شائع نہیں ہوا۔ رشید امجد صاحب کے پاس ہے، وہ نہ معلوم کب ’’دریافت‘‘ یا اپنی یونیورسٹی کے دوسرے جریدے میں شائع کریں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مرثیہ نگاری میں انیسؔ اور دبیرؔ کے بعدبہت سے معتبر نام ہیں لیکن ان میں سر فہرست نام صبا اکبر آبادی کا ہے۔ گستاخی معاف، مضامین میں کوئی بھی اس سطح تک نہیں پہنچ پایا جس کی توقع کی جا سکتی تھی۔ ’عبدالرحیم نشترکی غزل میں شام کاا ستعارہ‘‘، ’’کرناٹک میں اردو غزل‘‘ اور ’’یوسفیات ، ایک مطالعہ‘‘تینوں limited subjectsہیں جو سب قارئین کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکتے۔ ’’سارتر کا فلسفۂ وجودیت‘‘ ہماری یونیورسٹیوں میں جونیر لیول کے طلبہ کی سطح کا ہے۔ صرف بھنڈر صاحب کا آپ کے نام مکتوب ہے، جسے With reference to the previous contextپڑھنا بہت ضروری ہے۔ بھنڈر صاحب جو کام کر رہے ہیں اس کی بنا پر وہ ادبی شرلک ہومزکہلائے جانے کے مستحق ہیں۔
گوشۂ حسن رضاؔ اپنے آپ میں مکمل ہے۔ میں رضا صاحب سے کئی بار ملا ہوں اور ان کے کلام سے محظوظ ہوا ہوں۔ ڈاکٹر اعجاز راہی (مرحوم) ہم دونوں کے دوست تھے اور اپنے مضمون میں انہوں نے رضا صاحب کو باریکی سے جانچا ہے، چہ آنکہ راہیؔ صاحب کا میدان اختصاص افسانہ نویسی کی تنقید تھا۔ کچھ برس پہلے انہوں نے میرے پرانے افسانوں کی چار کتابوں پر بھی ایک مضمون لکھا تھا، انہیں یہ قلق ضرور تھا کہ میں نے اپنی تخلیقی قوت کی کارکردگی کا دھارا مکمل طور پر شاعری کی طرف ہی کیوں موڑ دیا ہے، جبکہ میں نے اپنے وقتوں میں ساٹھ سے کچھ اوپر افسانے لکھے تھے ۔ انکا خود نوشت ’’من آنم کہ من دانم‘‘ بہت سی ذاتی اور وارداتی باتوں سے پردہ اٹھاتا ہے، جس کے بارے میں کم از کم مجھے علم نہیں تھا۔ رضا صاحب مجھ سے اکیس برس چھوٹے ہیں اور میں خود نظم اور صرف نظم کا شاعر ہوں ، بلکہ بقول ایک دوست کے ’کسی کو خاطر میں نہیں لاتا‘، لیکن ان کی دو نظمیں ’’اپنے لیے ایک نظم‘‘ اور ’’نئے نینوا کا المیہ‘‘ پڑھ کر طبیعت خوش ہو گئی۔
غزلوں میں انور سدید صاحب کی دونوں غزلیں (باوجود دوسری غزل کی طویل ردیف ہونے کے)، نصرت ظہیر کی غزل، احمد صغیر صدیقی کی دونوں غزلیں، فیصل عظیم کی دونوں غزلیں اور مظفر حنفی صاحب کی غزلیں اچھی لگیں۔عبداللہ جاوید صاحب نابغۂ روزگار شخصیت ہیں۔ ان کے کچھ شعروں نے دل موہ لیا۔
زندگی میں ابتری پہلے سے تھی گھر کے اندر بے گھری پہلے سے تھی
یا یہ شعر یہاں تو سلسلے ہی سلسلے ہیں کوئی بھی واقعہ تنہا نہیں ہے
سلطان جمیل نسیم کا افسانہ ’’موسم کی پہلی بارش‘‘ سونے سے تولے جانے کے قابل ہے۔ پچاس برسوں سے کچھ زیادہ عرصے کی ادبی کمائی یونہی ضائع نہیں جاتی۔ ایک دن یاد فرما رہے تھے کہ پچاس کی دہائی میں ان کے اور راقم الحروف کے افسانے اختر انصاری اکبر آبادی کے رسالے ’’نئی قدریں‘‘ حیدر آباد (سندھ) میں ساتھ ساتھ چھپتے تھے۔ کاش وہ دن لوٹ آئیں اور میں افسانوں کی طرف ایک بار پھر اپنا تخلیقی رُخ موڑ سکوں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار احمد ندیم قاسمی صاحب کے دفتر میں بیٹھے ہوئے (میرے ساتھ ’’ادب لطیف‘‘ کی مدیرہ صدیقہ بیگم اور افسانہ نگار نیلم احمد بشیر بھی تھیں جو مجھے وہاں تک اپنی گاڑی میں لے گئی تھیں، جب میں نے یہ بات کہی تھی، تو بابا مرحوم نے فرمایا تھا۔ ’’آپ نے تو کہانی کا پیچھا کرنا چھوڑ دیا، لیکن کہانی نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ دیکھ لیجیے، آپ کی لگ بھگ سب نظموں میں کہانی چپکے سے در آتی ہے!‘‘۔سلیم آغا قزلباش کا ’’کھارے پانی کا کنواں‘‘، شفیق انجم کا ’’میں اور میں‘‘ اور دیگر سبھی افسانے اچھے ہیں۔ نام نہیں گنوا رہا، معافی چاہتا ہوں، لیکن اس بار افسانوں کا حصہ باقی سب حصوں پر بھاری رہا۔۔۔۔اب رہی نظموں کی بات۔ کچھ نہیں لکھوں گا۔ کیوں؟ یہ بات آپ مجھ سے نہ پوچھیے، میں جواب نہیں دے سکوں گا۔ ستیہ پال آنند(امریکہ)
اب تک جدید ادب کے چار شمارروں کا مطالعہ کیا ہے۔ان میں شامل مضا مین،تفصیلی مطالعہ،خصوصی مطالعہ،افسانے نظمیں ،غزلیں،ماہیے وغیرہ سب ہی لائق تحسین ہوتے ہیں۔بعض مضامین تو نئے نئے انکشافات منظر عام پر لاتے ہیں۔جدید ادب کے مطالعہ سے مجھے اپنی علمی و ادبی تربیت کا احساس ہوا ہے۔اس کا ماہیوں کا حصہ میرے نزدیک بہت اہمیت رکھتا ہے،میں اس سے بہت استفادہ کرتی ہوں۔اس کی وجہ سے مجھے نئے نئے ماہیا نگاروں اور انکے کلام کے انتخاب کی سہولت میسر ہوجاتی ہے جو میرے مقالے کی تکمیل کے لئے معاون ومدد گار ہیں۔ میں’’اردو میں ماہیا نگاری‘‘پرڈاکٹرارشد جمال صاحب کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ تیار کرنے کا ادبی فریضہ انجام دے رہی ہوں۔ صبیحہ خورشید۔کامٹی ضلع ناگپور
شمارہ ۱۱ پیشِ نظر ہے۔ خوبصورت گیٹ اپ میں ایک بھر پور ادبی جریدہ۔مبا رکباد پیش کر تی ہوں۔ ’ گفتگو ‘ کے تحت آ پ نے جو مسا ئل چھیڑے ہیں وہ خا صے گھمبیر معلوم ہو تے ہیں۔میرے خیال میں تخلیقی ادب ماورائیت سے یکسر مبرّا نہیں ہو سکتالیکن آپ کا یہ اشا رہ بھی صحیح ہے کہ خالی خولی ماورائیت ادب کے لئے نقصان دہ ثابت ہو تی ہے۔ افسا نوں کا شعبہ ہی پڑھ سکی ہوں ۔ افسا نے ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ ذا تی پسند پر یہ کہہ سکتی ہوں کہ سلطان جمیل نسیم ،محمد حامد سراج ،ڈاکٹر بلند اقبال اور جا ن عا لم صاحبان کے افسا نے اچھّے لگے۔اتنے اونچے معیار کے شما رے پر ایک مرتبہ پھر مبا رکباد۔ شہنا زخا نم عا بد ی۔ کینیڈا
بہت پہلے سے آپ کی نثری اور شعری تخلیقات پڑھتا رہا ہوں۔چند افسانے تو بے حد اہم ہیں۔آپ کے افسانوں کی بُنت اور اُس کو برتنے کا انداز بہت خوب ہے۔ماہیا کو ایک تحریک بنانے کے لیے آپ نے محنت کی ہے وہ ناقابلِ فراموش ہے۔آپ کے مضامین کی حق گوئی و بیباکی نے ہمیشہ چونکایا ہے۔
آپ کا مثالی جریدہ جدید ادب عبدالرب استاد کے توسط سے مجھے ملا تو میں حیران رہ گیا بہترین طباعت، عمدہ کاغذ، خوبصورت سرورق،غزلیں، نظمیں، ماہیا، مضامین، افسانے، خصوصی گوشے، تبصرے، خطوط۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا پڑھوں اور کیا چھوڑوں؟مثالی معیار اور مواد، آزادیٔ اظہار کی اہمیت اور اسکی قدرافزائی کے نمونے، نئے حقائق کے انکشافات کی اسقدر ہمت، حوصلہ اور جراء ت یہ عام آدمی کا کام نہیں ہے۔ جدید ادب شمارہ نو(۹) شمارہ دس (۱۰) اور شمارہ گیارہ (۱۱) میں جناب گوپی چند نارنگ پر جناب عمران شاہد بھنڈر کے مضامین کا ہنگامہ۔ آپ کے ادارتی نوٹ اور جوئیہ صاحب کا ردعمل ،یہ سب خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سلسلہ میں محترمہ شبانہ یوسف نے ان تمام کتب تک رسائی حاصل کی جنکا حوالہ بھنڈر صاحب نے اپنے مضمون میں دیا ۔محترمہ کا تفصیلی خط( شمارہ نمبر گیارہ) بے حد اہم گواہی پیش کرتاہے۔
۔۔۔۔۔۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا…………جناب کاوش عباسی صاحب کے خط پر آپ کا ادارتی نوٹ بھی معنی خیز ہے۔
’’جدید ادب ‘‘پر جناب انور سدید صاحب کا تبصرہ شائع کرتے ہوئے آپ نے جو ادارتی نوٹ دیا ہے۔’’میں بہت سارے پردہ نشینوں کے نام ظاہر کرچکا ہوں۔ انھیں دہرانے اور مزید نام ظاہر کرنے کیلئے بھی تیار ہوں۔ لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا سے ایک ایک اور ادبی رسالہ میرا ساتھ دے اور میرے وہ مضامین بیک وقت پاکستان، انڈیا، اور جرمنی سے شائع ہوسکیں۔ آپ پاکستان سے کسی ایک حق گو رسالے کے مدیر کو اس کیلئے راضی کرلیں میں اسی وقت اسی لمحہ سے اس نیک کام کا آغاز کرنے تیار ہوں‘‘۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ع کون ہوتاہے حریف مئے مردافگن عشق؟
’’کئی چاند تھے سرے آسماں‘‘ پر آٹھ صفحات کے تفصیلی جائزے میں آپ نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کا سکہ جمادیاہے۔پرچہ کی ترتیب، تخلیقات کا انتخاب، ادارتی نوٹس اور بیباکی،یہ سب دیکھتے ہوئے مجھے ’’سوغات‘‘ اور محمود ایاز کی یاد آتی ہے۔ مبارکباد۔راولپنڈی سے گلزار جاوید کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہ نامہ ’’چہار سو‘‘ کا زرسالانہ (دلِ مضطرب نگاہِ شفیقانہ) لکھا ہواہے۔ مگر ’’جدید ادب میں‘‘ کہیں بھی موجودہ شمارے کی قیمت کا اندراج ہے نہ زر سالانہ کا ذکر……؟؟ اسے قربانی کہتے ہیں یا خدمت…… مجھے اور کوئی لفظ نہیں مل سکا!
’’عمر لاحاصل کا حاصل‘‘ گیارہ کتابیں۔ یا صرف جریدہ ’’جدید ادب‘‘، ان دو پلڑوں میں کونسا پلڑا بھاری ہے؟ یا دونوں برابر ہیں؟ فیصلہ نہیں کر پایا!!!آپ کے جذبے کی تھوڑی سی دھول خدا مجھے بھی عطا کرے…… آمین
تنہا تما پوری(تما پور۔کرناٹک)
تاخیر سے ملنے والا ایک خط:(بحوالہ شمارہ نمبر ۸)
جدید ادب کا آٹھواں شمارہ ’’جنت نگاہ‘‘ بنا ہوا ہے۔یہ شمارہ متنوع نگارشات(جن میں شاعری بھی شامل ہے)کے ساتھ ساتھ غیر معمولی تہذیب و ترتیب کا مظہر ہے۔گوشۂ رشید امجد محنت اور محبت سے مرتب کیا گیا ہے۔آپ کا یہ قدم مستحسن ہے آپ سرکردہ قلم کاروں کا اُن کے جیتے جی اُن کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مُردہ پرستی کو ترک کرکے مایۂ ناز فنکاروں کو Tributeپیش کریں۔
آپ نے زمینی حقائق کے پیشِ نظر اردو زبان و ادب کے حال اور مستقبل کے بارے میں اپنے تردد کا اظہار کیا ہے۔آپ کا اداریہ بلاشبہ اردو کے شائقین کے لیے ایک بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے۔اس ضمن میں آپ کی پیش کردہ تجویز توجہ انگیز ہے۔اردو کے پرستاروں کی ایک عالمی کانفرنس ضرو ر ثمر بار اور نتیجہ خیز ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس میں ہر ملک اور ہر خطے کے اُن لوگوں کو شریک نہ کیا جائے جو ہر وقت کمر باندھے اور ’’بستر باندھے ہوئے‘‘ چلنے کو تیار ہوتے ہیں۔یہاں تک کہ کانفرنسیں اور سیمینار وغیرہ، مشاعروں کی مانند’’نشستند و گفتند و برخواستند‘‘ہو کر رہ جاتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ چیدہ چیدہ صاحب الرائے اور عاشقانِ اردو کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کیا جائے اور باہمی مشاورت سے ایک ایسا لائحہ عمل تجویز کیا جائے جو مختلف ملکوں کے ارباب اختیار اورپالیسی ساز اراکین کے لیے قابلِ فہم اور قابلِ توجہ ہو۔پھر اتفاق رائے سے چند برگزیدہ اور معتبر اشخاص کا ایک وفد سربراہانِ ممالک سے مل کر اُن کے خدشات اورReservations کو رفع کریں۔اس سلسلہ میں الیکٹرانک میڈیا کا تعاون ناگزیر ہو گا۔ ہندو پاک دونوں ممالک باہمی امن، محبت اور یک جہتی سے کام کرنے کے خواہشمند ہیں۔اس ضمن میں یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان دونوں ممالک کے درمیان ایک موثر اور مربوط رابطے کا کام کرے گی۔
آپ کا کیا خیال ہے؟ ڈاکٹر حامدی کاشمیری(سری نگر)
ضروری نوٹ: آخری مرحلہ میں خطوط کے صفحات میں سے محترمہ حمیدہ معین رضوی صاحبہ کا خط اشاعت سے روکنا پڑا۔دیگر خطوط میں بھی بہت سے حصے حذف کرنا پڑے۔وجہ۔۔۔ابھی ناگفتنی ہے۔قارئین کرام دعا کریں کہ اب رسالہ جرمنی سے ہی شائع کرنے کے قابل ہو جاؤں۔۔۔پھر آزادیٔ اظہار کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوگا۔انشا ء اللہ!۔۔۔۔آخری مرحلہ کی سنسر شپ کے باعث اس شمارہ کاایک صفحہ خالی بچ گیا تو اس پر اپنی دو
تازہ غزلیں شامل کر رہا ہوں۔ حیدر قریشی
اشاعت کے آخری مرحلہ میں
دوتازہ غزلیں:حیدر قریشی
جیسی بھی ہے اس دنیا سے کٹ کر نہیں رہنا جب پیار بڑھانا ہے تو ڈٹ کر نہیں رہنا
دُوری بھی مٹانی ہے محبت کے سفر میں اک حد کو بھی رکھنا ہے،لپٹ کر نہیں رہنا
اپنوں کو تو کچھ اور بھی نزدیک کریں گے سوچا ہے کہ غیروں سے بھی ہٹ کر نہیں رہنا
لازم ہے سنا جائے کھلے ذہن سے سب کو اپنے ہی خیالات میں اَٹ کر نہیں رہنا
جتنا ہوں حقیقت میں ، وہی دِکھنا ہے مجھ کو اوروں کے لیے بڑھ کے یا گھٹ کر نہیں رہنا
کچھ اپنے دل و ذہن کو نزدیک کیا ہے اندر بھی زیادہ ہمیں بٹ کر نہیں رہنا
رہنا ہے بہر حال یہیں پر ہمیں حیدرؔ دنیا سے مگر اتنا چمٹ کر نہیں رہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بخشی تھی ہجر نے جو تب و تاب لے گیا اس جسم کو تو وصل کا سیلاب لے گیا
خوابوں سے بڑھ کے پیار کی تعبیریں بخش کے جاتے ہوئے وہ میرے سبھی خواب لے گیا
دامن کو میرے بھر گیا چَین و قرار سے بدلے میں وہ مِرا دلِ بے تاب لے گیا
کر دی ہیں ماند رونقیں دریائے جان کی رقصاں تھے اس میں جتنے بھی گرداب لے گیا
تاکہ کسی سفر پہ نکل ہی نہ پاؤں اب ہمراہ اپنے وہ مِرا اسباب لے گیا
پہلے تو اس نے کی تھیں عنایات بے شمار پھر جو بھی میرے پاس تھا نایاب، لے گیا
سیراب کر کے ، پیاس کی لذّت کو چھین کر صحرا کے ضابطے، ادب آداب لے گیا
جگنو ، ستارے، اشک، محبت کے ہم سفر میرے تمام ہجر کے احباب لے گیا
اک روشنی سے بھر گیا حیدرؔ مِر ا وجود بے شک وہ میرے سورج و مہتاب لے گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔