عبدالرب استاد(گلبرگہ)
شاعرِ خوش نوا، طائرِبلند پرواز،
خالق ’’بام بقاء‘‘: طاہر عدیم
طاہرؔ عدیم کا مجموعہ بام بقاء میرے ہاتھوں میں ہے۔ کلام اور کلیم دونوں پر ایک اچٹتی سی نظر ڈالنے سے یہ عقدہ کھلا کہ دونوں ہی علیم و عدیم ہیں۔ بزرگوں کا قول ہے کہ کسی بھی شخص کے ہوگا، تبھی اس کے متعلق کبھی کہاجاسکتاہے۔ اب میری مجبوری یہ ہے کہ میں طاہر عدیم قطعی واقف نہیں ہوں۔ اور نہ مجھے وہ جانتا ہے۔ اب صرف ایک ہی راستہ رہ جاتاہے۔ کہ اس کے کلام سے اس تک پہنچنے کی کوشش کروں۔ ناچیز ایک ادنیٰ طالب علم اور طاہر عدیم ٹھہرا شاعر اور فنکار، بہرحال بساط بھر کوشش کے ساتھ اس بام پر قدم رکھنے کی سعی کررہاہوں۔ ویسے حضرت غالبؔ کو بھی انتخاب شعر نے رسوا کردیا تھا۔ خیر اس مجموعہ کو دیکھنے کے بعد مجھے یک گونہ خوشی اور انبساط حاصل ہوا کہ چلو جتنا یہ بندہ خوبصورت ہے (تصویر کے دیکھنے سے) کتاب بھی کچھ اسی طرح خوبصورت ہے۔ اور یہ سب خیال کی پاکیزگی، کلام کی روانی، بیان کی شستگی سے چھلک رہاہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ طاہرؔ عدیم کچھ نیا کردکھانے کی کوشش اور لگن میں مست ہے۔
عموماً مجموعوں کی ابتداء حمدونعت ہی سے ہوتی ہے۔ بام بقاء بھی اسی روایت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ البتہ اس روایت میں جدت ملتی ہے اور وہ یہ کہ حمد و نعت غزل کے پیرایہ میں ہے۔ حمد کیلئے جو انکساری اور عجزبیان ہونا چاہئے۔ وہ انکے یہاں بدرجہ اتم ہے اور نعت کیلئے جس محبت اور خلوص عشق کی ضرورت ہے وہ عمدگی سے بیان ہوئی ہے۔ حمدیہ اشعار ملاحظہ ہوں،
یہ میں کہ ابجد سے ناشناسا
وہ تو کہ سوچوں سے ماورا ہے
تیری محبت کی روشنی سے
چراغ آنکھوں میں جل رہاہے
میں خوش نصیبی کی انتہا پر
یہ تیری بخشش کی ابتداء ہے
یقینا وہ خوش نصیب ہے کہ عنفوان شباب میں ہی فن پورے شباب پر نظر آتاہے، اس کوشش و کاوش کو پھلنااور پھولنا چاہئے۔ نعتیہ اشعار ملاحظہ ہوں۔
آپؐ کا قرب، آپؐ کا دیدار
میرے ہر زخم کی دوا ہوتا
پھول بن کر عدو کے کانٹوں پر
آپؐ کی راہ میں بچھا ہوتا
کلام کے متعلق شیر خدا حضرت علی کرم اللہؓ کا قول ہے کہ
’’انسان زبان کے پردے میں چھپا ہوتاہے، کلام کرو تاکہ پہچانے جاؤ‘‘
کلام ہی سے شخصیت کی پہچان ہوتی ہے، کلام ہی ہے جو انسان کو انسان بناتاہے اور یہی وہ پیمانہ ہے جس سے اس کو پرکھا جاسکتاہے۔ گلبرگہ (کرناٹک) کے معروف شاعر سلیمان خطیب نے ایک نظم میں کہا کہ
بات ہیرا ہے بات موتی ہے بات لاکھوں کی لاج کھوتی ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے بات مشکل سے بات ہوتی ہے
بات بولے کلیم ہو جائے سننے والا ندیم ہو جائے
بلاشبہ عدیمؔ کے کلام کو پڑھنے والا ندیم ہوہی جاتاہے۔ کیونکہ طاہر عدیم جواں سال شاعر توہے۔ ساتھ ہی ان کی شاعری اور کلام کی جولانی قاری کو اپنے حصار میں کرلینے کا ہنر رکھتی ہے۔ اس وقت ادب میں ایسے نوجوان شعراء کی کمی محسوس ہوتی ہے جو اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار کھل کر شعروادب کے حوالے سے کرسکیں۔ بشرؔ نواز نے ایک موقع پر یہ کہا تھا کہ آج ادب میں جوبھی نیا شاعر آرہاہے اتفاق سے وہ چالیس سال کی عمر سے تجاوز کیا ہوا ہی نظر آتاہے۔ بیس سے تیس سال کا نوجوان مجھے نظر نہیں آرہاہے، ایسے نئے شعراء کو ادب میں آنا چاہئے، انھیں لکھنا اور ادب کی آبیاری میں جت جانا چاہئے۔ طاہر عدیم کے کلام کو دیکھنے کے بعد یہ محسوس ہوتاہے اور خوشی بھی ہوتی ہے کہ آج بھی ایسے نوجوان ہماری اردو دنیا میں معدودے چند ہی سہی موجود ہیں۔ طاہر عدیم جس نے عمر کی تین دہائیاں گذاریں اور چوتھی سے گذررہے ہیں۔ اس میں مجموعہ کلام کا چھپنا قابل تعریف ہے۔
’’بام بقاء جس میں ۱۰۱؍ غزلیں ، ۱۰؍ نظمیں اور آدھا درجن قطعات شامل ہیں۔ غزل جس نے کئی ادوار دیکھے، نشیب و فروز سے گذری، معتوب کم اور مقبول زیادہ رہی، جو حسن وعشق کے پردے میں مسئلہ ذات کے ساتھ ساتھ مسائل حیات و کائنات کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہوئے اپنی زندگی کا ثبوت دیتی رہی، جس نے چراغ سے چراغ جلانے کا کام سرانجام دیا، استادشعراء کی بصیرانہ روشنی سے نئے شعراء کیلئے راہوں کو منور کرتی رہی، اور نئے شعراء بھی نئی لفظیات، نئی تراکیب اور نئی علائم سے غزل کو سنوارتے جارہے ہیں جن میں طاہر عدیمؔ ایک ایسا نام ہے جو اساتذہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی ایک الگ راہ بنانے میں کوشاں نظر آتاہے۔ مشرق مزاج یہ مشرقی شاعر زندگی تو مغرب میں گذاررہاہے لیکن پھر بھی مشرقی صنف سخن میں طبع آزمائی میں لگاہواہے۔
بام بقاء کی غزلوں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ طاہر عدیم نے اپنے مجموعہ میں جہاں سہل ممتنع اور سادگی میں اشعار کہے ہیں وہیں ہجرکے لمحات کو بھی پیش کیا ہے۔ اساتذہ کے رنگ میں جدت طرازی کا ثبوت دیتے ہوئے معاشرہ میں ہونے والی اتھل متھل کو پیش کیا۔ مولانا حالیؔ نے شعر کی خوبیوں میں سے ایک خوبی سادگی(شرط) بتائی تھی۔ رودکیاتھا’’…… خیال ایسا ہی بلند اور دقیق ہومگر پیچیدہ اور ناہموار نہ ہو، اور الفاظ جہاں تک ممکن ہوتحاور اور روزمرہ کی بول چال کے قریب ہوں‘‘۔ طاہر عدیمؔ کے یہاں خیال کی بلندی بڑی سبک روی کے ساتھ ملتی ہے۔ اور وہ محاورہ اور روزمرہ کا استعمال بھی فنکارانہ انداز میں کرتے ہیں۔
گفتگو میں اس قدر مالک ہے وہ تاثیر کا اس زمیں پر چلتا پھرتا جیسے مصرعہ میرؔ کا
ایک دنیامری آباد تری ذات سے تھی ہوسکا میں نہ کسی کا جو تمہارا نہ ہوا
جب نظر میں برہنگی ناچے لاکھ پردہ ، حجاب کیونکرہو
ظالم و مظلوم کی داستانوں سے کتابیں بھری پڑی ہیں، ہاں ہر عہد کا اپنا انداز رہاہے۔ آج باوجود سائنسی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی و انٹرنیٹ کی ترقیات کے انسان، انسان کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑرہاہے۔ مفاد آج کے انسان کا مسلک بن گیاہے۔ اسی مفاد کی خاطر وہ کچھ بھی کرگذرنے کو تیار ہے۔ مظلوم، انصاف کی دہائی دے رہاہے مگر اس کی کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ رشوت ستانی عام ہے بھلا ایسے میں کہاں انصاف ، حکومتیں بھی وعدے کرتی ہیں، کمیشن بٹھاتی ہیں، جانچ کروانے کا تیقن دیتی ہیں، مگر ہائے رے انصاف دیکھئے طاہر عدیمؔ نے کیا کہا ہے۔
یوں تو کیا کیا نہ پڑاؤمری بستی میں پڑے ایک انصاف کے خیمے تھے کہ ڈالے نہ گئے
اس دور کو عموماً تشکیک، بے یقینی اور بے زمینی سے تعبیر کیا جاتارہاہے۔ ایک سیدھے سادے آدمی کو زندگی گذارنا بڑا دشوار ہے کیونکہ چالاکیا اور عیاریاں اس قدر ہوگئی ہیں کہ بقول محمود سروش
بدلا ہے مذاق اس طرح ابنائے زمانہ معیوب کو معیوب بتانا بھی برا ہے
مگر طاہر عدیم اسی تشکیک سے دوچار نظر آتے ہیں۔
فلک کو دیکھوں تو ڈرہے زمیں کے چھننے کا زمیں کو دیکھوں تو ڈرتا ہوں آسماں نہ رہے
طاہر عدیم نے اساتذہ سخن سے استفادہ کیا ہے مگر جیسا کہ بتایاگیا ہے کہ ان کے یہاں جدت طرازی نظر آتی ہے۔ ان کے اشعار پڑھنے کے بعد ذہن معاً اساتذہ کے کلام کیطرف جاتاہے۔ جیسے
طاہر عدیم : اس بھری دنیامیں طاہرؔان گنت شہکار ہیں شہر میں چلتے ہوئے ہر آدمی پر غور کر
میرؔ: سرسری ہم جہان سے گذرے ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
طاہر عدیم: اس کو سوچوں تویہ دیکھوں وہ قیامت ہے عدیمؔ
اس کو دیکھوں تو یہ سوچوں کہ قیامت کیا ہے؟
فانیؔ : ذکر جب بھی چھڑگیا قیامت کا بات پہنچی تری جوانی تک
قافیہ غزل کی جان اور مرکز ہوتاہے مگر ردیف اس کو چمکانے والی ہوتی ہے۔ اور لکھنو کے شعراء میں انشاء، مصحفی، شاہ نصیروغیرہ کی ردیف ، کہیں انوکھی تو کہیں لمبی لمبی ہواکرتی تھیں جیسے، الٹا، مکھی، فلک پہ بجلی زمیں پہ باراں وغیرہ، یہاں طاہر عدیم کے ہاں بھی اس میں کچھ نیاپن محسوس ہوتاہے کہ انھوں نے بھی مختلف ردیفیں استعمال کی ہیں۔ جیسے ، آگ، مٹی، پانی، ہوا، چراغ، دائرے، آنکھیں، خواب، گفتگو، بارش، کافی، شکار وغیرہ وغیرہ، اس کے ساتھ ہی ان کی غزل میں نئی لفظیات اور تراکیب بھی ملیں گے جیسے، دعا کے جگنو، سوچوں کے چراغ، دشت، افکار، کشتِ سخن،اناؤں کے بھرم، روزن چشم، خئیمہ جسم ناتواں، ارتعاش لمس، کشت رمزہنر، طبیب عشق بتاں، یدوضع ستم، دریدہ جسم، بریدہ خواب وغیرہ، اور ہندی لفظیات کا استعمال بھی ملتاہے، جیسے، آکاش، دھنک، گھائل، سخن، بے انت، اور ، پرایادیس، پرم پرائیں، وغیرہ وغیرہ۔
بام بقاء کی صدفی صد غزلوں میں دس فی صد نظمیں اپنے تنوع اور موضوع کے اعتبار سے بہت عمدہ ہیں۔ کبھی کبھی گمان ہوتاہے کہ ان کی نظمیں، غزلوں پر سبقت لے گئی ہیں۔ ان کا تسلسل، ان کی لے، بندشیں اورلفظیات واقعی دل موہ لیتے ہیں۔ نظم وہ ’’جوخواب تھا‘‘ ایک سماں باندھ دیتی ہے۔ دریا کی سی روانی اس میں ملتی ہے۔ اس کو پڑھتے ہوئے ذہن افتخار عارف کی نظم گیارھواں کھلاڑی کیطرف چلاجاتاہے۔ اور نظم’’بچھڑکے اس سے میں کیا کروں گا‘‘۔ ایک ایسی شخصیت کے وصال پر لکھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اور اس میں لفظوں کے ارتباط نے ایک لے پیداکردی اور وہ لے ہر کسی کی حس کو بیدار کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ ایک عاشق اپنے معشوق کی دوری کو برداشت نہیں کرپارہاہے۔ ایک بیٹا اپنے باپ یا ماں کے فراق کو جھیل نہیں پارہاہے یا ایک غلام اپنے آقا کی جدائی کو سہہ نہیں پارہاہے۔ انتہائی جذباتی انداز میں لکھی ہوئی نظم ہے۔ اسی طرح ’’تم کبھی بے وفانہ کہنا، خواب سے حقیقت تک، نشان صورت منزل کہاں ہے۔ محبت ہی محبت، نظمیں بہت عمدہ ہیں۔
بلاشبہ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ طاہر عدیم نئی سوچ اور فکر رکھنے والاشاعر ہے، جس نے اپنے چمن شعر(بام بقاء) کو سنوارنے، اس کی تہذیب وتدوین میں بڑی محنت اور لگن کاثبوت دیاہے۔ وہ اس چمن شاعری کا ایسا مالی ہے جس نے بام بقاء کو سادگی اور سہل ممتنع کے پانی سے سیراب کیا، اس میں نئی لفظیات کی سبزہ زاری کی، ہندی لفظیات کی گلکاری کی، اور نئی لفظیات، تراکیب کی گل افشانی و نیز قطعات کے بیل بوٹوں سے اسے مزین و آراستہ کیا۔ ہاں کہیں کہیں کوئی پھول مرجھایاسالگتاہے، شاید اس پر دھیان نہیں دیاگیا۔ منجملہ کامیاب اور اچھی کوشش ہے۔ میں اس کوشش اور جرائت کے لئے انھیں دل کی گہرائیوں سے مبارکباد دیتاہوں۔ اور دعاگوہوں کہ یہ سعی سخن گوئی آنے والی کوششوں کا پیش خیمہ ہو اور ہر کوئی یہ کہے کہ
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں اب دیکھئے ٹھہرتی ہے جاکر نظر کہاں
آخر میں وہ اشعار جو مجھے پسند آئے:
مرے لفظوں پہ وہ رکھتا تھا دعا کے جگنو
کتنے روشن مرے اشعار کیا کرتا تھا
وہ جلاتا تھا لہو سے مری سوچوں کے چراغ
دشت افکار کو گلزار کیا کرتا تھا
آج بھی اس کی دیدکی طاہرؔ پڑی نہ کچھ خیرات
آج بھی خالی رہ گئے میری آنکھوں کے کشکول
انہی کو وجہ عروج شعور کہتاہوں
میں جن کو پیار سے طاہرؔ حضور کہتاہوں
اس بھری دنیامیں طاہرؔ ان گنت شہکار ہیں
شہرمیں چلتے ہوئے ہر آدمی پر غور کر
ہم اہل عشق کا یارو! یہی تو شیوہ ہے
لہوزمیں کیلئے ہے تو سرسناں کیلئے
آنکھوں میں ہے سات سمندر گہرائی
ابرو میں آکاش خمیدہ لگتاہے
دیار یار سے ہم کو نکالنے والو
اب اپنی آنکھ سے دیکھو کہ چار سوہم ہیں
شام ہوتے ہی جانے کیوں طاہرؔ
دل مرا سوئے ’’شام‘‘ ہوتاہے
زندگی میں توخیر کیا کرتا
زندگی نے مجھے گذارا ہے
طاہر عدیم کی شاعری چھوٹ جانے والی سر زمینوں کی طلب اور ان کی جانب مراجعت کی خواہش کی شاعری ہے۔اس کی شاعری میں موجود زمانے کے دکھوں،سکھوں کا احساس تو ملتا ہی ہے ،ایک ہجر کی کسک اور واہمے کا سایہ بھی نظر کی روشنی کو کاٹتا دکھائی دیتا ہے۔یہ احساس ان شاعروں کی شاعری میں گہرا نظر آ تا ہے جنہیں تلاشِ معاش یا کسی اور سبب سے جِلا وطن ہونا پڑا۔طاہر کے ساتھ بھی مسئلہ یہی ہے۔وہ عرصے سے جرمنی میں مقیم ہے اور پاکستان کی جانب سے چلنے والی ہواؤں کا منتظر رہتا ہے۔انتظار کا یہی منظر نامہ ہی دراصل اس کی شاعری کا ظہور ہے۔ منیر نیازی(بامِ بقا کے فلیپ سے)
اس مجموعے (بامِ بقاء)میں شامل ایک سو دو غزلوں میں بہت ساری شعری ساما گری دلپذیری کے رنگ رکھتی ہے کہ نگاہ و دل ٹھہرتے ہیں،دماغ سوچتا ہے اور پھر طاہر،قاری کے یادبسیروں میں خوشبو کی طرح بس جاتے ہیں۔۔۔۔’بامِ بقاء‘ کا تمام تر شعری لوازمہ ’عشق دل‘کے وہ نغمے ہیں ،جنہیں ہر اک دل گنگنانا پسند کرتا ہے۔پورا مجموعہ ہی ایسا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اپنے مترنم لحن سے تمام شاعری آپ کی سرگمی سماعتوں میں سمو دوں۔
افتخار امام صدیقی
(اقتباس از طاہر عدیم۔۔نئے شعری ذائقے کا شاعر۔مطبوعہ ماہنامہ شاعر بمبئی ص۴۸)
بامِ بقا کا مطالعہ ایک ایسے معاشرے کا مطالعہ بھی ہے جوسچ،جھوٹ،تہمتوں،بدنامیوں،اُمّیدوں اور ناکامیوں وغیرہ جیسی سب وارداتوں سے بھرا نظر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ طاہرؔ عدیم سے بہت سی توقعات وابستہ کی جا چُکی ہیں کیونکہ فطرت نے بھی اسے اپنے میدان میں ہر قسم کے سازوسامان سے لیس کر رکھّا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ یہ اپنے فن کو کمال کی بلندیاں عطا کرنے کی سنجیدہ کوشش کب کرے گا ۔ایسی کوشش جس میں سسکتی اِنسانیت ،اِرد گِرد موجود بِگاڑ اور ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کی وارننگ ہو گی۔ ظفراللہ محمود
(مضمون ’’دہلیزِ محبت پر آنکھ کھولنے والا شاعر‘‘سے اقتباس۔بحوالہ عکاس اسلام آباد شمارہ ۷،جون ۲۰۰۸ء)