جاوید انور (وارانسی)
(ڈاکٹر بلندا قبال ۔ نئے افسانے ، نئی جہات)
صدیق الرحمان قدوائی نے افسانے کی تیکنک کے تعلق سے فرمایا ہے:
ـ ’’ کہانی میں تیکنک کا معاملہ بھی غور طلب ہے۔تیکنک کے سارے انداز اگر احساس کی کسی نئی کروٹ کو راس نہ آئیں تو کہانی خود اپنے ساتھ کوئی نئی تیکنک لے کر آتی ہے جو نئی بھی ہوسکتی ہے ، پرانی بھی اور نئے اور پرانے کے درمیان کوئی اختراع بھی ۔ ہمارے مصنفوں نے تیکنک اور کہانی کی تلاش میں عالمی ادب کو خاصا کھنگالا ، اُس سے تھوڑا بہت حاصل ہوا مگر خود اپنے ملک کی لوک کتھا اور علاقائی زبانوں کے ادب کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دی جاسکتی تھی ۔‘‘ (نیا افسانہ ۔مسائل اور میلانات ، مرتبہ قمر رئیس ۔ ص ، ۱۰۴)
بلند اقبال کے افسانوں کے مطالعے کے بعد میں ایسا کوئی دعوی تو نہیں کرتا کہ انھوں نے اپنے ملک کی لوک کتھا اور علاقائی زبانوں کے ادب کی طرف جتنی توجہ دی جانی چاہیے ، دی ہے لیکن اُس کے اوپر صدیق الرحمان قدوائی نے افسانوں کی تیکنک کے تعلق سے جو کچھ بھی فرمایا ہے وہ بلند اقبال کے افسانوں میں موجود ہے(آگے اس پر تفصیل سے کلام کرونگا ) ۔اس سے بھی میں انکار نہیں کرتا کہ غیر ملک میں رہ کر وہاں کی تہذیب و معاشرت کو اپنے اوپر حاوی نہ کرتے ہوئے وہاں کے کھوٹے کھرے کے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد اور پورے ملک میں سکوت پزیر دوسرے ہم وطنوں کے آداب و اطوار کے آئینے میں پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہم وطنوں کے مزاج اور ماحول کا اپنی اصلی مٹی کے آئینے میں تجزیہ اُن کے افسانوں کے موضوعات میں اختصاص کے حامل ہیں۔علاوہ بریں اپنی اصلی مٹی میں بھی فروغ پارہے نت نئے تہذیبی ، معاشرتی ، ذہنی اور روحانی مسائل اُن کی افسانوی تخلیق کا محور ہیں۔اپنے تخلیقی اظہار کے لیے بلند اقبال نے جن اسلوبیات کا استعمال کیا ہے اُن میں واقعہ در وا قعہ مکالمہ اور عمل کا امتزاج بہت نمایا ں ہے ۔اس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے مختلف افسانوں میں کچھ مختلف اسلوب اور افسانوی طریقہ کار سے کام لیا ہے مثلا اُن کے افسانے ’ ’ یا بی بی سیدہ‘‘ میں ایک ادرش ماں کے کردار کو جس طرح بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بھی گمان گزرتا ہے کہ یہ اُن کی حقیقی ماں کا ایک پر تو ہے یا کلی طور پر اپنی ماں کے کردار کی حقیقت بیانی اُنہوں نے کی ہے۔افسانہ اور حقیقت کا یہ اشتہا ہ اور افسانے کا بر جستہ اختتام حیرت اور ماں سے جدائی کے کرب میں مبتلا کر دینے والا ہے۔
بلند اقبال نے اپنے افسانوں میں انسانی زندگی کے جن پہلووں کی نمائندگی کی ہے وہ اگر نئے نہیں تو انوکھے ضرور ہیں ۔ الفاظ کا انتخاب کبھی کبھار اُنہیں تجریدی افسانوں مثلا بلراج مین را ، سریندر پرکاش اور انور سجاد با لخصوص بلراج مین را کے افسانوں کی جھلک دکھا جاتا ہے لیکن موضوع اور مواد کے اعتبار سے افسانے پر مجموعی طور غور کیا جائے تو انکشاف ہوتا ہے کہ یہ تخلیق بلند اقبال ہی کی ہے۔اُن کے بعض افسانوں میں مرکزی خیال قصہ پن کے زیر سایہ اس قدر پردے میں چلا جاتا ہے کہ تجسس کی پرت در پرت کھنگالتے ہوئے آخری پیراگراف اور بعض میں آخری ایک ، دو یا تین سطروں میں کھلتا ہے( شکوہ) ۔اس افسانے میں واقعہ در واقعہ کے اس اسلوبیاتی عنصر کا استعمال کیا گیا ہے جیسے آغاز انجام اور پھر واپس انجام آغاز سے تعبیر کرتے ہیں ، یعنی افسانہ جہاں ختم ہوتا ہے وہی سے پھر اُس کی ابتدا ہوتی ہے۔افسانے کا مرکزی موضوع آفاقی سوال (Universal Question) کی جوصورت اختیار کر گیا ہے ، بلند اقبال کی اختراعی تیکنک کا مرہون منت اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ بہر حال مرکزی واقعہ درمیان سے شروع ہوتا ہے اور اس سے پہلے بھی تجسس کا ایک سلسہ جو ضمنی واقعہ میں ہے وہ بھی مرکزی واقعہ ہونے کا شبہ پیدا کرتا ہے ۔اس افسانے میں علت اور معلول (Cause and Effect) کا اصول بھی واضع ہے۔ لیکن بلند اقبال کے یہاں ایسے افسانے بھی مل جائیں گے جن میں علت اور معلول کے اصول نسبتا کم اہمیت رکھتے ہیں یا نہ کے برابر اہمیت رکھتے ہیں۔یہ درست کے علت اور معلول کے اصول بیانیہ ( مکالماتی یا تجریدی )کے لیے ایک زمانے میں نا گزیز تھے ۔ ارسطو نے بھی بیانیہ کے بنیادی اصولوں میں آغاز ، وسط اور انجام کی تر تیب کو مقدم جانا ہے اور اس طرح علت اور معلول کا رشتہ بھی نا گزیز ہے۔ لیکن جدید افسانہ نگاروں نے علت اور معلول کے ان اصولوں کی بہت زیادہ پرواہ نہیں کی اور بعض افسانوں میں تو اسے با لکل ہی نظر انداز کردیا ۔ اس کی جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ یہ کہ زندگی کے معا ملات جدید دور میں اس قدر پیچیدہ ہوگئے ہیں جن کی مثال پچھلے زمانوں میں نہیں ملتی۔ اس لیے فکشن بالخصوص افسانے میں اظہار کے طریقے کو کسی ایک خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا ۔ اس کے لیے متعدد کھلی راہیں درکار ہیں ۔ ممتازشیریں نے اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے بہت عمدہ کہی کہ:’’ کسی بھی تیکنک کے بارے میں یہ قطعی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا کہ فلاں تیکنک بہتر ہے ۔۔ہر موضوع اور مواد کے لیے الگ الگ تکنیک کی ضرورت ہوتی ہے ‘‘۔۔۔بلند اقبال کے بعض افسانے جدید دور کے رجحان کی پیروی کرتے ہوئے زمان و مکان کی قیود کو توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ انہوں نے اپنے بعض افسانوں میں تسلسل اور ربط کو کم اہمیت دی ہے اور شعور کی رو کو کافی حد تک اپنے افسانوں میں برتا ہے ۔ ان کا افسانہ ’’ فرشتے کے آنسو‘‘ اپنے موضوع ، مواد اور ہیت کے انوکھے طریقہ کار کی بنا پر بہت کامیاب افسانہ قرار دیا جاسکتا ہے ۔ اس میں علت اور معلول کا اصول بھی ہے اور پلاٹ بہت پیچیدہ نہیں لیکن غائب راوی والے اس افسانے میں فرشتے کے مرکزی کردار سے جو بات پیدا کی گئی ہے وہ اظہار کے انوکھے اسلوب کے ساتھ ساتھ مکالمہ اور منظر کو ایک ڈرامائی کیفیت عطا کرتی ہے ۔ اپنے اس افسانے میں موضوع بھی بلند اقبال نے با لکل نیا نہیں تو جدید اور انوکھا ضرور چُنا ہے۔
بلند اقبال کے افسانوں میں منظر نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔بعض افسانوں میں منظر نگاری کی ضمن میں ہی انسانی زندگی کی کشمکش اور تصادم کی عکاسی ہوتی ہے ۔ منظر کشی کے نئے مواد کی فراہمی اور اس کی فنی تراکیب ایسی ہوتی ہیں کہ وہ افسانوی بھی ہیں اورحقیقت بھی معلوم ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ منظر نگاری کے ان اجزااور منظر نگاری ہی کیا تمام افسانے اہم اجزا سے منسلک الفاط کا انتخاب افسانہ نگار کے مزاج اُس کی علمی اور فکری رسائی ، تخیلی صلاحیت اور میلان طبع پر منحصر ہوتا ہے ۔ بلند اقبال نے منطر کشی کے زریعہ اپنے بعض افسانوں میں زندگی ، سماج اورتہذیب کا جو مشاہدہ پیش کیا ہے وہ پلاٹ کے استحکام میں مو ثر صورت میں نمایاں ہوتا ہے ۔ منظر نگاری کے ضمن میں جو واقعہ اُن کے افسانوں میں بیان ہوتا ہے اُس کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ افسانے سے منسلک ہوکر اپنی قدر و قیمت کا تعین تو کرواتا ہی ہے۔اگر محض تحریری بیانیہ کے ایک ٹکڑے کو علیحدہ مفہوم و معنی کے تنا ظر میں بھی دیکھا جائے تو اس کے بطن سے دوسرے قوتمند افسانے کے جنم لینے کی صلاحیت اور اسی قبیل کے کسی دوسرے افسانے میں منظر نگاری کے طور پر شمولیت کی اہلیت بھی رکھتے ہیں ۔ سلیم اختر نے افسانے کی تکنیکی تنوع میں اس کے تمام اہم اجزا کے تعلق سے جو بات کہی ہے وہ کم و بیش بلند اقبال کے منظر نگاری کے فن پر بھی صادق آتی ہے۔سلیم اختر فرماتے ہیں :’’افسانوی عناصر واقعہ ، کردار ، منظر نگاری ، مکالمے اور جذبات نگاری میں کمی بیشی کرکے تکنیکی تنوع پیدا کرنا جدید افسانہ نگارروں کا کارنامہ ہے ‘‘ (سلیم اختر۔داستان سے افسانے تک ص ،۵۴)
بلند اقبال کے افسانے ’خدا کا بُتـ‘ ، ’اکیسویں صدی کی موت ‘ ’ انتظار‘ اور’ نروان‘ اُس کی عمدہ مثالیں ہیں۔
ژرازژنیت نے جو خال ظاہر کیا ہے اس کا اطلاق بھی قاری اور سامع پر ہوسکتا ہے اور ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ہر قاری اور سامع اپنے اپنے علم اور بصری کینوس کے مطابق افسانے کو اپنے شعور میں جگہ دیتا ہے ، اپنے وجدان کا حصہ بناتا ہے ۔لہذا قارئین اور سامعین کے نقطہ نظر سے معنی اور مفہوم میں تھوڑا بہت فرق تو لازمی ہے لیکن فنکاری یہ ہے کہ افسانہ اپنے اختتام پر اس قدر چست ، پر اثر اور اگر ممکن ہو توانجام اس قدر غیر متوقع ہو کہ اس آخری نکتے پر آکر افسانہ نگار اور قاری یا سننے والے کا ذہن اگر مکمل نہیں توقریب قریب ہم اہنگ ہو جائیں ۔ یعنی افسانہ نگارجو پیغام دینا چاہتا ہے ، جو بات کرنا چا ہتا ہے وہ قاری اور سننے والے تک تھوڑا بہت تبدیل ہوتی ہوئی صورت میں ہی سہی، پہنچ جائے۔اگر ایسا نہ ہو تو فن کار پر ترسیل کی نارساء کا الزام ناگزیز ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ افسانہ نگار نے جو بات کہی ہے قاری اور سامع کا ذہن وہی تک پہنچ کر ختم ہوجائے یا وہی مقید رہ جائے بلکہ معاملہ دراصل یہ ہے کہ وہ بات یا پیغام جس کا اظہار افسانے نگار نے افسانے میں کیا ہے اس کے علاوہ بھی معنی و مفہوم کی جو پر تیں افسانے میں موجود ہیں اس کے لیے بھی راستہ با لکل کھلا اور ہموار ہو۔بات پہنچادینے یا پیغام پہنچادینے سے یہ مراد ہر گز نہیں کہ افسانہ نگار نے اپنی سوچ قاری اور سامع پر مسلط کردی اور اب اس کی آنکھ سے افسانے کو دیکھنا اور سمجھنا ہوگا بلکہ فنکار کا عندیہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنی تخلیق کا اختتام اس جگہ کرے جہاں اُس کا تخلیقی مقصد بھی پورا ہو اور قاری اور سامع کو اپنے اپنے طور پر معنی و مفہوم اخذ کرنے کی مکمل آزادی بھی ہو۔بلند اقبال اپنے افسانوں میں کافی حد تک اس دشوار مرحلے سے کامیابی کے ساتھ گزر گئے ہیں(نہیں،اندھا فرشتہ،فورتھ ڈ ا ئمنشن ، ستیہ کے بکھرے ہوئے بال)۔۔۔۔۔ بلند اقبال نے اپنے افسانوں کے لیے جب موضوعات کا انتخاب کیا ہے اُن میں سے بیشتر ایسے تجربے ہیں جو اس سے قبل بہت کم کیے گئے ہیں ۔اور جس سے جد و جہد کرتے ہو ئے نیا فنکار اپنے دور میں اُنھیں سر کرنے کی تلاش میں سرگرم ہے۔ ان نئے مسائل کا انسلاک ذمینی ، علاقائی ،سیاسی،نفسیاتی اور بنی نوع انسان کے شعوری ، لا شعوری اور تحت الشعور ی مسائل سے ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی فردیت کے عجیب و غریب الجھتے ہوئے تصورات سے بھی ہے (نروان) ان نئے مسائل کا خوف نئے ذہن کی تازہ اور نو حیاتیاتی قوتوں کی برنگیخت کرتے ہوئے جہاں سرعت ، شدت اور تندی اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے وہی اپنی مٹی کی طرف جو کہ اس کی پرانی پناہ گاہ ہے ، کی طرف بھی کبھی کبھار پلٹ کر دیکھنے کو مجبور کرتا ہے لیکن یہاں بھی ذہنی غیر آہنگی اور اک طرح کے ردعمل اور کشمکش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ ’’ فورتھ ڈائمینشن‘‘ بھی اپنی نوعیت کا ایک انوکھا افسانہ ہے ۔ جس کا پلاٹ بعض اوقات ایک فلسفے کی صورت اختیار کرجاتا ہے ۔پرسراریت کو متن کی توسیع نے کوئی نیا معنی تو نہیں دیا ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس افسانے پر ضمیمہ نگاری کی تکنیک کے چند اصول پوری طرح صادق آتے ہیں اور بلند اقبال کو نئے عہد کے ایک معتبر تخلیق کار کی صورت میں مستحکم کرتے ہیں ۔ یہاں ضمیمہ نگاری کی تکنیک کے چند اصولوں پر بلند اقبال کا افسانہ پورا اترتا ہے کا بیان بھی ناگزیز ہے ۔ اول تو یہ کہ کسی پرانے موضوع یا متن کی اپنے عہد کے سیاق میں ازسرنو دریافت کی جائے اور اسے ترمیم و اضافے کے عمل سے گزارے کے بعد نئے سماجی ، سیاسی اور معاشرتی ڈسکو رس پر اس کے معنی کے اطلاق کی راہیں متعین کی جائیں یا راہیں تلاش کرکے ان کی نئی ادبی قدروقیمت کے تعین کی کوشش کی جائے ۔ دوئم یہ کہ پرانے مواد کو نئے اسلوب میں پیش کرکے ان معنی کی نئی جہات کو کھنگالا جائے ۔
’’فورتھ ڈائمینشن‘‘ میں جو موضوع اور مواد پیش کیا گیا ہے وہ اردو کی داستانوی تاریخ سے لیکر پریم چند کے افسانوی عہد اور اسکے بعد آج تک اپنی مختلف صوروتوں میں منکشف ہوتا رہا ہے یا اُسے برتا جاتا رہا ہے ۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف ممالک میں اُس کی نوعیت بھی مختلف رہی ہے ۔ بلند اقبال کا کمال یہی ہے کہ اُنہوں نے متن کی توسیع کا استعمال کرتے ہوئے اس کو الگ اسلوب میں بیان کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔واقعہ در واقعہ کی تکنیک کے انسلاک نے اس کے اختیار اور معنویت میں اضافہ کیا ہے۔اس طرح بلند اقبال کا ایک افسانہ ’’ خدا کا بُت‘‘ ہے جو اپنی ڈرامائی کیفیت اور موضوع کی انفرادیت کے سبب بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔بلند اقبال نے اپنے افسانوں میں مکالمے کو بہت کم جگہ دی ہے ۔زیادہ تر افسانے غائب راوی کے زریعہ بیان ہوتے ہیں اور مرکزی کردار کے احساسات کو حاضر راوی ، غائب راوی اور کبھی منظر کشی کے توسط سے خود کلامی کی صورت میں ابھارا گیا ہے ۔ دراصل جدید عہد میں جدید نفسیات جس کی اساس شعور اور لا شعور میں پیوست کبھی ظاہری طور پر سماج اور معاشرے کی عطا کردہ اور کبھی باطنی طور پر ذات اور روحانی کرب کی عطاکردہ ذہنی گتھیوں کی نشاندہی اور اُس کی تفہیم و تشریح پر منحصر ہے ، نئے افسانے میں بہت قوت اور علاماتی زرائع کے طور پر سامنے آئی ہے ۔سلیم اختر کا کہنا غلط نہیں ہے کہ
’’ افسانے پرلکھنے والے بیشتر ناقدین کا اس امر پر اتفاق ہے کہ جدید افسانے کی تکنیک میں جو انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ،وہ نفسیات کی مرہون منت ہے۔‘‘ ( سلیم اختر ، نفسیاتی تنقید ، ص ۲۷۰)
بلند اقبال کے افسانوں کے اس مختصر جائزے سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے قلم سے افسانوی ادب کی بہترین خد مت کی تو قع کی جاسکتی ہے ۔