تعارف:حیدر قریشی
منشا یاد کے منتخب افسانے مرتب:ڈاکٹر اقبال آفاقی
صفحات208: قیمت: 150 روپے ناشر:مثال پبلشرز۔رحیم سنٹرپریس مارکیٹ،فیصل آباد
منشا یاد اردو کے معروف و ممتاز افسانہ نگار ہیں۔ڈاکٹر اقبال آفاقی ایک اہم نقاد اور ادبی تجزیہ نگار ہیں۔میں ان کی ناقدانہ نگاہ اور تجزیاتی انداز کا ایک عرصہ سے خاموش مداح ہوں۔اب انہوں نے منشا یاد کے افسانوں میں سے اپنی پسند کے ۲۱افسانے منتخب کیے ہیں۔اس انتخاب کے شروع میں انہوں نے ایک طویل مقدمہ ’’کہانی اور منشا یاد‘‘تحریر کیا ہے ۔اس مقدمہ میں انہوں نے عمدگی کے ساتھ منشا یادکی کہانیوں سے ملاقات کرائی ہے۔منشا یاد کا اپنا مرتب کردہ انتخاب’’شہرِ فسانہ‘‘زیادہ بھر پور انتخاب تھا تو یہ انتخاب بھی اپنے اندر جامعیت کی خوبی لیے ہوئے ہے۔ڈاکٹر اقبال آفاقی کے طویل مقدمہ کا ایک اقتباس ان کے مجموعی اندازِ نظر کی بہترین ترجمانی کرتا ہے:
’’منشا یاد کا کمال یہ ہے کہ اس نے ان گرے پڑے لوگوں کو ایک ایسی نظر سے دیکھا ہے کہ تحیر زا بصیرت کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ہم سوچتے رہ جاتے ہیں کہ کیا ردِ عمل کی یہ صورتیں بھی ممکن ہو سکتی ہیں۔کیا انسانی جبلّتیں اس طرح کے کھیل بھی کھیل سکتی ہیں۔یہ بھوک کے عذاب،موت کے خوف،تنہائی اور بے بسی کے مارے اور زمانے کے دھتکارے ہوئے لوگ ہیں،جیسے تھور زدہ زمین،جیسے اونٹ کٹارے،جیسے صحرا کی کبڑی جھاڑیاں،جیسے ویران بستیوں کے کتے،گیدڑ یا بھوت پریت۔منشا یاد بڑا جادوگر ہے۔وہ کتوں اور گیدڑوں کو انسان بنا دیتا ہے۔وہ صحرا کی کبڑی جھاڑیوں کو قد آور درختوں میں تبدیل کر دیتا ہے۔اس کی جادو کی چھڑی سے اونٹ کٹارے گلاب کی خوشبو دینے لگتے ہیں اور تھور زمین گل و گلزار کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔یہ جادو گری نہیں تو اور کیا ہے!مُردوں کو زندہ کرنا مسیحائی ہے۔وہ مسیحا ہے ،گرے پڑے بدبودار لوگوں کا مسیحا۔جن کا شرفِ انسانیت وہ بحال کردیتا ہے‘‘
اس انتخاب میں ان۲۱ افسانوں کو شامل کیا گیا ہے۔تیرھواں کھمبا،راستے بند ہیں،کچی پکی قبریں،پانی میں گھرا ہوا پانی،ماس اور مٹی،بوکا،تماشا،جیکو پچھے،دامِ شنیدن(ڈنگر بولی)،دنیا کا آخری بھوکا آدمی،وقت سمندر،سارنگی،بیتال کتھا،زوال سے پہلے،شجرِ بے سایہ،پنج کلیان،چیزیں اپنے تعلق سے پہچانی جاتی ہیں،ایک تھی فاختہ،ساجھے کا کھیت،بحران اور کہانی کی رات۔
خیال کی مسافت(تنقید) مصنف:شمیم حنفی
صفحات236 قیمت: 300 روپے ناشر:تخلیق کار پبلشرز،لکشمی نگر۔دہلی
شمیم حنفی اردو ادب کی ایک اہم اور معتبر علمی شخصیت ہیں۔خیال کی مسافت ان کے تنقیدی مضامین کا تازہ مجموعہ ہے۔پریم چند،علامہ اقبال،منٹو،راجندر سنگھ بیدی،میرا جی،ن۔م۔راشد،فیض احمد فیض،قرۃ العین حیدر،انتظار حسین،علی سردار جعفری،اخترالایمان کے فن یا فکر کی مختلف جہات کے حوالے سے انہوں نے عمدہ مضامین تحریر کیے ہیں۔’’اردو ادب کی صورتحال ‘‘سے لے کر ’’اکیسویں صدی کا ادب،کچھ سوال‘‘ تک انہوں نے بدلتے ہوئے عالمی تناظر میں ادب اور اردو ادب کی مجموعی صورتحال کو گہری نظر سے دیکھا ہے۔اس ضمن میں انہوں نے مایوس کن صورتحال کے باوجود امید کا چراغ جلایا ہوا ہے۔جدیدیت اور اردو شاعری، ادب میں نئی حسیت کا مفہوم،کل کی کہانی،غزل کا سوالیہ نشان،طویل نظم سنہ ساٹھ کے بعد اور نئی تنقید کا المیہ ،مضامین شمیم حنفی کی تنقیدی بصیرت کا اظہار ہیں۔مشرق و مغرب کی آویزش میں انہوں نے انگریزی کے ادبی رسالہ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘کی ہزار سالہ غلط بخشی کا علمی تجزیہ کیا ہے۔مذکورہ رسالہ نے ۱۹۹۹ء میں ایک ہزار برس کی سب سے اہم کتابوں کی نشان دہی کا کام کیا،جس میں ابنِ خلدون کو چھوڑ کر باقی سب کے سب مغربی مصنفین کو شامل کیا گیا۔
اس سے تمام تر روشن خیالی کے باوجود اہلِ مغرب کی علمی و ادبی تنگ نظری کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔کسی غم و غصہ کے بغیر نہایت سنجیدگی اور متانت سے لکھا گیا یہ مضمون انگریزی میں ترجمہ ہو کر اہلِ مغرب تک پہنچنا چاہیے۔
ہمارے ہراچھے سے اچھے لکھنے والے کابھی ایک مخصوص حلقۂ احباب ہوتا ہے اور اپنے تمام تر تجزیوں اور تبصروں میں بڑی حد تک غیر جانبدار رہتے ہوئے بھی ہم اپنے حلقۂ احباب کی نگارشات پر زیادہ توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔شمیم حنفی کے ہاں بھی یہ رویہ صاف دکھائی دیتا ہے اور کسی قسم کا انقباض پیدا نہیں کرتا،تاہم ایک دو مقامات پر ان کے رویے سے ہلکی سی حیرت ہوئی۔مثلاََ اپنے مضمون’’طویل نظم سنہ ساٹھ کے بعد‘‘میں انہوں نے کیسے کیسے نظم نگاروں کے سامنے وزیر آغا کی شاہکار نظم’’آدھی صدی کے بعد‘‘کو اتنا سرسری لیا ہے کہ میں حیران رہ گیا۔اس مضمون میں مذکور ساری نظموں میں سب سے اعلیٰ ترین نظم وزیر آغا کی آدھی صدی کے بعد تھی اور اسی کو نظر انداز کر دیا گیا۔’’اردو ادب کی موجودہ صورتحال‘‘میں انہوں نے بڑا متوازن انداز اختیار کیا ہے ۔ ایٹمی جنگ کے خطرہ کا احساس کرتے ہوئے میں نے ۱۹۸۰ء سے ۱۹۹۱ء کے دوران تین مختلف کہانیاں لکھی تھیں۔انڈوپاک کے ایٹمی دھماکوں کے معاَبعدمیں نے وہ تینوں کہانیاں اپنے پیش لفظ کے ساتھ’’ایٹمی جنگ‘‘ کے نام کے ساتھ اردو اور ہندی اسکرپٹ میں شائع کرا ئی تھیں۔ایٹمی دھماکوں کے حوالے سے شمیم حنفی نے جو حوالے شاملِ مضمون کیے ہیں۔میری ’ایٹمی جنگ‘ان کی نظر سے گزری ہوتی تو شاید وہ اسے بھی پذیرائی بخشتے۔مجموعی طور پر’ خیال کی مسافت‘
شمیم حنفی کی تنقیدی بصیرت کی آئینہ دار ہے،جو بڑی حد تک متوازن اندازِ نظر کی حامل ہے۔
خواب،ہوا اور خوشبو(نظمیں) شاعر:جمیل الرحمٰن
صفحات:27 8 قیمت:300 روپے ناشر:اکادمی بازیافت۔کراچی
جمیل الرحمن کے تین شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں لیکن تینوں مجموعے ایک خاص فکری پس منظر کے باعث ادبی دنیا میں سامنے نہیں آسکے۔حالانکہ پہلا مجموعہ’’زمیں جب آنکھ کھولے گی‘‘اپنے مخصوص پس منظر کے باوجود ادبی دنیا میں لایا جانا چاہئے تھا۔بہر حال اب ’’خواب،ہوا اور خوشبو‘‘کے نام سے جمیل الرحمن کی نظموں کا مجموعہ شائع ہوا ہے اور اسے وہ پورے اعتماد کے ساتھ ادبی دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔مغربی ممالک میں جدید نظم کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں اور جدید نظم کہنے والے تو اور بھی کم ہیں۔ایسے گھٹے ہوئے شعری ماحول میں جمیل الرحمن کی نظموں کا یہ خوبصورت مجموعہ خوشگواریت کا احساس دلاتا ہے۔ابرا ر احمد نے کتاب کے پیش لفظ میں حقِ ادب اور حقِ دوستی دونوں کو ادا کر دیا ہے اور بین السطورحق بات بھی کہہ دی ہے۔احمد ہمیش،احمد جاوید،سلیم کوثر،اصغر ندیم سید،احمد صغیر صدیقی، محمد حمید شاہد اور فرخ راجہ جیسے جدید نظم فہم سینیئرز کے ساتھ معراج جامی،رومانہ رومی،نثار ترابی اور ندیم ہاشمی جیسے جدید نظم کے نئے قارئین کی آراء سے بھی کتاب کو سجایا گیا ہے۔جمیل الرحمن نے اپنے خصوصی نوٹ میں لفظ کی ناگزیریت کو عروض پر فوقیت دینے کی بات کی ہے۔اگلے زمانوں میں جسے عجزِ اظہار کہا جاتا تھا،وہ جدید نظم میں اپنے جواز کے لیے ایک حد تک گنجائش بنا چکی ہے۔ تاہم اتنی گنجائش کے باوجود جمیل الرحمن کو نظموں کے ساتھ چند نثری نظمیں کیوں لکھنا پڑیں؟یہ بات واضح نہیں ہوئی۔ تاہم یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ جمیل الرحمن نے اپنی نثری نظموں کو بے وزن نہیں ہونے دیا،یعنی شعری ردھم میں نہیں آنے دیا۔اس لحاظ سے یقیناَ اس نے کامیاب نثری نظمیں لکھی ہیں۔نثری نظموں سے قطع نظرہالینڈ میں مقیم جمیل الرحمن کی نظموں کا یہ مجموعہ ادبی دنیا میں عمومی طور پر اور جدید نظم کے حلقہ میں خصوصی طور پر سراہا جائے گا۔
کلامِ نسّاخ(افسانے) مقدمہ و مرتبہ:شہناز نبی
صفحات:192 قیمت:250 روپے ملنے کا پتہ:88-H-2,Elliot Road,Kolkata-16
انیسویں صدی میں بنگال میں ایک ادبی شخصیت عبدالغفور نسّاخ کا جنم ہوا۔وہ نا مساعد حالات کے باوجود ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کے عہدہ تک پہنچے۔سرکاری ذمہ داریوں کے ساتھ انہوں نے اپنا علمی و ادبی سفر بھی جاری رکھا۔شہناز نبی نے نسّاخ پر اب تک ہونے والے کام کی کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی حیات وتصانیف کو بہتر طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ان کے اساتذہ اور تلامذہ کا ذکر کیا ہے۔ان کی ادبی خصوصیات کواجاگر کیا ہے۔نساخ کے سفر نامچے،مختصر خاکے،بے ترتیب خود نوشت،کا جائزہ لیا ہے،ان کے تیسرے شعری مجموعہ ’’ارمغان‘‘کا انتخاب بھی شامل کیا ہے۔مجموعی طور پر شہناز نبی نے تحقیقی محنت اور تنقیدی دیانت سے کام لیتے ہوئے بنگال کے انیسویں صدی کے ایسے شاعر اور ادیب کی ادبی خدمات کو اجاگر کیا ہے،جسے ادبی دنیاایک طرح سے بھول چکی تھی۔شہناز نبی کی اس تحقیق و تنقید کو علمی و تحقیقی حلقوں میں یقیناََ سراہا جائے گا۔
ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں(تجزیاتی مطالعہ) مرتّب:بلراج کومل
صفحات:256 قیمت:180 روپے ناشر:پبلشرز اینڈ ایڈور ٹائزرز،دہلی
جدید نظموں کے مطالعہ کا رواج جدیدتنقید کے زیرِ اثر شروع ہوا تھا۔قارئین کو نظم کی سمجھ نہیں آتی تھی سو اس مطالعاتی سلسلہ نے قاری کے لیے کچھ سہولت پیدا کر دی اور نکتہ آفرینی کی صورت بھی بن گئی۔مابعد جدیدیت نے اس نکتہ آفرینی کو رومال یا ٹوپی میں سے کبوتر نکال کر دکھانے کا کھیل بنا دیا۔اب مابعد جدیدیت کا گوپی چندنارنگ کے ہاتھوں جو انجام ہو چکاوہ علمی سطح پر عبرت کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔(مجلسی سطح پر نارنگ صاحب جتنا چاہے اپنا جی بہلا لیں،پر جتنا ہو چکا،بڑا عبرتناک ہے )میراجی اور راشد کے زمانے کے بعدسے اب تک جدیدنظم فہمی کا سلسلہ اتنا ہو جانا چاہیے تھا کہ نظم کا قاری خود اس سے لطف اندوز ہو سکے۔لیکن نظم کے تجز یاتی مطالعہ کے نام پر مضامین کا جوسلسلہ جاری ہے اس سے ایسا لگتا ہے جیسے نظم کے ساتھ ’ترکیب استعمال‘کا پرچہ لف کیا جا رہا ہو۔میں نے ستیہ پال آنند کی تیس نظموں کو پڑھ کر زیادہ لطف اُٹھایا ہے اور یہ نظمیں ایسی ہیں کہ نظم کے قاری کے لیے غیر ضروری مشکل پیدا نہیں کرتیں۔جن دوستوں نے نظموں کا تجزیہ؍مطالعہ کیا ہے ان کاستیہ پال آنند کے تئیں اخلاص بر حق ہے لیکن شاید یہ دوسرے قارئین کی آزاداقرأت میں روک بھی پیدا کرتے ہیں۔بہر حال جو کام خلوص سے کیا جائے اس کی قدر کی جانی چاہیے،بس اس بنیاد پر ایسے تجزیاتی مطالعات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ یہ کتاب ستیہ پال آنند کی نظموں کی تفہیم میں عام قارئین کے لیے کسی نہ کسی طور ممدو معاون ثابت ہو گی۔
خیال موسم(غزلیں) شاعر:جاوید ندیم
صفحات:172 قیمت:150 روپے ناشر:تکمیل پبلی کیشنزممبئی
جاوید ندیم ہندوستان میں اردو کے ایک عمدہ شاعر ہیں۔’خیال موسم‘ ان کی شاعری کا تیسرا مجموعہ ہے جو صرف غزلوں پر مشتمل ہے۔کتاب کے شروع میں نشتر خانقاہی نے جو ابتدائیہ لکھا ہے اس میں غزل کے حوالے سے جو گفتگو کی گئی ہے وہ غزل کے اچھے تخلیق کاروں کے لیے بھی دلچسپی کا باعث بنے گی۔انہوں نے بلاشبہ بعض نہایت عمدہ نکات ابھارے ہیں۔جاوید ندیم کی غزل کے حوالے سے بھی انہوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ بڑی حد تک بجا ہے۔ان کے چند اشعار سے ان کی غزل کے تیور دیکھے جا سکتے ہیں۔
ہو رہے ہیں زندگی کے نِت نئے اظہار گم منچ سے ہو جائیں گے کل سب کے سب کردار گم
گزرا ہے وقت گر تو گزر کر کدھر گیا ساکن اگر رہا تو کہاں پر سفر گیا؟
ہر ربط،ضرورت کی ہے ڈوری سے بندھا اب تھا دل سے کبھی دل کو جو رشتہ وہ کہاں ہی
صرف ایقان ہی ایمان رہا ہے اپنا ہم نے پہلے بھی خدا کو بھلا دیکھا کب تھا
کاغذ سیاہ تم نے عبث ہی کیے ندیمؔ حل شاعری سے کوئی بھی کیا مسئلہ ہوا؟
اردو غزل کے سنجیدہ قارئین کے لیے جاوید ندیم کا یہ شعری مجموعہ ایک اچھا تحفہ ہے۔