ماہیا کہانی
غا رکا پتھر
وسیم عالم
(گوجرانوالہ)
اﷲ کے بندوں کی
بات سناتا ہوں
اک پچھلے وقتوں کی
٭
آپس میں سفر ان کا
اک دن یکجا ہی
ہوتا ہے گذر ان کا
٭
ان مشکل راہوں سے
ریگستانوں سے
جنگل سے پہاڑوں سے
٭
طوفانی آندھی تھی
بارش تھی اس دن
بوچھاڑ تھی اولوں کی
٭
ان کو نہ کچھ سوجھا
ایسے میں آخر
اک غار وہاں دیکھا
٭
تینوں سہمے سہمے
جان بچانے کو
اس میں ہی جا بیٹھے
٭
طوفانی آندھی سے
ایک گرا پتھر
اتنے میں چھوٹی سے
٭
منہ غار کا جو وا تھا
پتھر گرنے سے
یکسر وہ بند ہوا
٭
چارے تھے بہت لائے
پتھر وہ لیکن
پھر بھی نہ ہٹا پائے
٭
کر کر چارے تینوں
بیٹھ گئے نیچے
مایوس ہوئے تینوں
٭
اک بولا مانو گر
ایسا کرتے ہیں
ہم تینوں ہی مل کر
٭
ان اپنے کاموں کو
آؤ یاد کریں
ہم اچھے کاموں کو
٭
چھٹکارا مل جائے
شاید اﷲ پھر
بچھڑوں سے ملوائے
٭
پھر ہاتھ اٹھا کر وہ
پہلا بولا یوں
آواز سنا کر وہ
٭
ہے کون جو نہ مانے
تیری قدرت ہے
تو سب کچھ ہی جانے
٭
جو رزق حلال آیا
خود بھی کھایا اور
بچوں نے بھی تھا کھایا
٭
تو ہے رحمان خدا
آج مصیبت سے
ہم سب کی جان بچا
٭
ماہیا کہانی
پیچھے کو یوں سرکا
ایک بڑا بھاری
پتھر وہ تھورا سا
٭
پھر ہاتھ اٹھا کر وہ
دوجا بولا یوں
آواز سنا کر وہ
٭
یا رب محتاجوں کے
کام آیا ہر پل
میں مفلس لوگوں کے
٭
گر تجھ کو لگا اچھا
آج مصیبت سے
ہم سب کی جان بچا
٭
کچھ اور تھا وہ سرکا
ایسے میں پتھر
پیچھے اور تھوڑا سا
٭
اب ہاتھ اٹھا کر وہ
تیسرا بولا یوں
آواز سنا کر وہ
٭
غار کا پتھر
بھیڑیں میں چراتا ہوں
دودھ میں دوہتا ہوں
جب شام کو آتا ہوں
٭
پھر بعد میں دوجوں کی
خدمت کرتا ہوں
میں اپنے بزرگوں کی
٭
یہ فرض نبھاتا ہوں
سب سے پہلے میں
دودھ ان کو پلاتا ہوں
٭
بس شام سویرے ہیں
ماں اور باپ سدا
مجھ سے خوش میرے ہیں
٭
اس نے کی ختم دُعا
پتھر لڑھکا وہ
جا نیچے دور گرا
٭
طوفانی آندھی بھی
رک گئی اتنے میں
بوچھاڑ بھی اولوں کی
٭
وسیم عالم
سب نے کیا شکر ادا
اور اپنی اپنی
منزل کا رستہ لیا
٭
بات اس میں ہے یہ پائی
ہر اک کے اپنی
نیکی ہی کام آئی
٭