شاداب بسیرا ہے
شہر کٹک اپنا
اردو کا جزیرہ ہے
کس بات کا جھگڑا ہے
ہر شے فانی ہے
کچھ تیرا نہ میرا ہے
جنتا ہے مصیبت میں
نیتا مگن لیکن
کرسی کی سیاست میں
میں ہوں مِرا سایہ ہے
آج کی دنیا میں
اپنا بھی پرایا ہے
اک حشر کا منظر ہے
جس سمت بھی دیکھو
ہر ہاتھ میں خنجر ہے
گو دھوپ کا صحرا ہے
ماں کی دعاؤں سے
سر پر مِرے سایہ ہے
دوری کو مٹائیں ہم
ہاتھ ملاتے ہیں
اب دل بھی ملائیں ہم
دھوکے بھی کھاتا ہوں
اپنی وفاؤں کی
خوشبو بھی لٹا تا ہوں
یہ وقت ہی بھاری ہے
طوفاں کی زد میں
اب کشتی ہماری ہے
مفہوم کے ہیں گہنے
دل میں اتر جائیں
اشعار سعیدؔ اپنے