عید ماہیے:
پھر عید نہیں ہو گی
چاند سے مکھڑے کی
جب دید نہیں ہو گی
کیا خوب سماں ہوگا
عید کے موقعے پر
جب تو بھی یہاں ہوگا
روئے گا،رُلائے گا
مفلس بیچارا
کیا عید منائے گا
اَک آہ و زاری ہے
تیرے بنا ساجن
کیا عید ہماری ہے
اپنے سے جدا کرکے
عید نہیں ہو گی
ساجن کو خفا کرکے
یادوں کے ریلے میں
عید گزاریں گے
سپنوں کے میلے میں
ساون ماہیے
ساون کا مہینہ ہے
یادوں کی زد میں
بابرؔ کا سینہ ہے
کیا خوب نظارا ہے
موسم ساون کا
اچھا ہے،پیارا ہے
ملنے کو ترستا ہے
یاد کا ساون جب
اس دل پہ برستا ہے
حالات کا ہالہ ہے
خود کو ساون میں
مشکل سے سنبھالا ہے
ساون کی بہاریں ہیں
دل میں بابر کے
یادوں کی پھواریں ہیں