معبود نہیں کوئی
تیرے سوا مولا!
مسجود نہیں کوئی
اک اہلِ بقا تُو ہے
سارے خداؤں کا
در اصل خدا تو ہے
کب بس میں نہیں تیرے
فرشی و عرشی کیا
سب زیرِ نگیں تیرے
اظہار کمال، اللہ
حُسن کا منبع ہے
تیرا ہی جمال اللہ
حیرت کا مقام اللہ
کیسے چلاتا ہے
خود سارا نظام اللہ
کب دُور رہا ہے تو
اپنے ہی بندوں کی
رگ رگ میں بسا ہے تو
کب ڈھونڈتا ہے تجھ کو
آنکھ جسے دی ہے
وہ دیکھتا ہے تجھ کو
گُن تیرے ہی گاتے ہیں
تیرے ہی آگے سب
سر اپنا جھکاتے ہیں
ہر حال میں یارا ہے
تیری مشیّت پر
ایمان ہمارا ہے
مجھ جیسا گداگر بھی
تیرا ہی ٹھہرا ہے
محتاج، سکندر بھی
ذرّوں کو ستاروں میں
کون بدلتا ہے
شبنم کو شراروں میں
کیا چاند ستاروں میں
تو ہی منور ہے
پُر نور نظاروں میں
پہلے تُو مٹائے گا
بعدِ اجل ہم کو
پھر تُو ہی جِلائے گا
دی تونے یہ صف ہم کو
سب کے خلیفہ ہیں
حاصل ہے شرف ہم کو
کیا فن یہ خدایا ! ہے
حمد لکھیں کیسے
یہ تونے سکھایا ہے
تو صاحبِ قدرت ہے
تیری بدولت ہی
ہر پھول میں نکہت ہے
ہر بوند میں دریا ہے
پیاس کے ماروں نے
اس راز کو سمجھا ہے
گرتے ہیں، سنبھلتے ہیں
اہلِ جنوں لیکن
ہر حال میں چلتے ہیں
میں خود سے پشیماں تھا
راہِ تمنّا میں
کب چاک گریباں تھا
سپنا وہ سلونا تھا
خون مِرے دل کا
ہر حال میں ہونا تھا
کیا بات تھی منظر میں
موج تڑپ اُٹھی
آنکھوں کے سمندر میں
کانوں میں صدا گونجی
بن کے سوا اکثر
میری ہی نوا گونجی
ہر عیش کا ساماں ہے
حبس مگر کیوں ہے
جب فصلِ بہاراں ہے
مرنے میں ہے کیا رکھا
ہم نے تو جیتے جی
مرنے کا مزہ چکھا
خود زہر یہ پیتے ہیں
حوصلہ دیکھو تو
کس دور میں جیتے ہیں
یاد آکے ستاتے ہیں
بیتے ہوئے لمحے
بس جی کو جلاتے ہیں
مشکل کو بڑھادیں گے
لوگ تو شعلوں کو
کچھ اور ہوا دیں گے
اربابِ سیاست کا
امن پرستوں پر
الزام ہے ’’دہشت‘‘ کا
ہے کوئی خفا مجھ سے
پچھلے دنوں سے جو
روٹھا ہے خدا مجھ سے
جو دشت پہ چھائے ہیں
ٹکڑے یہ بادل کے
ترسانے کو آئے ہیں
آنکھوں میں تلاطم ہے
کیوں یہ دکھاوے کا
ہونٹوں پہ تبسم ہے
اُمید جگاتا ہے
کوئی بھی موسم ہو
پھر لَوٹ کے آتا ہے
کیا خوب ڈھٹائی سے
جھوٹ بھی کہتا ہے
تو کتنی صفائی سے
پھر حکم ہو ساون کو
آکے بھگو ڈالے
احساس کے دامن کو
مت پوچھ کہ کیسا ہے
حال مِرے دل کا
اب میرؔ کے جیسا ہے
کس تیر کا گھائل ہے
من کا مِرے پنچھی
اک عمر سے بے کل ہے
کیوں فصلِ بہاراں میں
درد چمک اُٹھا
اس دل کے شبستاں میں
یادوں کی وہ بستی ہے
آخرِ شب مجھ کو
بِن تیرے جو ڈستی ہے
احوال مرے جی کا
تم نہ سمجھ پائے
مفہوم خموشی کا
آ، تجھ کو صدا دی ہے
بیچ کی پھر ہم نے
دیوار گرا دی ہے
منہ زور ہواؤں میں
محوِ سفر ہیں ہم
کس طرح خلاؤں میں
کیا غم ہے خدا جانے
آنکھ مری آخر
کیوں نم ہے خدا جانے
لمحات کے زنداں میں
قید ہیں یوں جیسے
ہیں گورِ غریباں میں
ہر غم سے پرے ہوتے
کاش! اگر ہم بھی
پتھر کے بنے ہوتے
تھی رُت ہی تباہی کی
ہم نے سزا کاٹی
ناکردہ گناہی کی
جس سمت سے گزرے تھے
نقشِ قدم اپنے
کس شان سے اُبھرے تھے
لمحوں کو منانے میں
عمر مری گزری
ناز اُن کے اُٹھانے میں
سہنا ہے ستم ہم کو
عشق کے مسلک کا
رکھنا ہے بھرم ہم کو
آنکھوں میں دھواں سا ہے
صبح کا منظر بھی
اب بارِ گراں سا ہے
کیا خواب تھا آنکھوں میں
خواب سے جاگے تو
سیلاب تھا آنکھوں میں
سودا تھا مِرے سر میں
اس نے ہی پہنچایا
اس شہرِ ستم گر میں
معتوب ہواہوں میں
جسم کے زنداں کا
دکھ جھیل رہا ہوں میں
یوں روند دیا مجھ کو
حرفِ مکرر سا
کیوں سمجھا گیا مجھ کو
مت پوچھ کہاں ہوں میں
میرا ٹھکانا کیا
دریا ہوں،رواں ہوں میں
جذبات کے آنگن میں
آگ بھڑکتی ہے
کچھ اور ہی ساون میں
ہر راز چھپا کھلتا
گل کا ہواؤں سے
جب بندِ قبا کھلتا
کس غم میں پگھلتی ہے
برف کے سینے میں
اک آگ سلگتی ہے
دیدار کا طالب تھا
جاگنا راتوں کو
دیوانے پہ واجب تھا
شعلوں کو ہوا دینا
ہاتھ ملاتے ہی
بس ہاتھ دبا دینا
آ دل کی اٹریا میں
ہونے لگے ہلچل
احساس کے دریا میں