یہ تاج ہے،یہ دل ہے
چاہے جسے چن لے
یہ سہل،یہ مشکل ہے
جو دھوپ میں گزرے گا
شہرِ نگاراں میں
وہ زلف تو ڈھونڈے گا
کیا دیکھنا، کیا لینا
ٹوٹتی محرابیں
اور چیختا مینارہ
تختے پہ جو لیٹا تھا
تیری عنایت سے
وہ تخت پہ بیٹھا تھا
جو رکھتے نہیں شانے
بوجھ اُٹھائیں گے
کیا یاری کا دیوانے
ذروں کے جہاں میں تھے
خواب میں کل یارو
ہم ریگِ رواں میں تھے
چوپال کا برگد ہے
کاٹ نہ اس کو تو
یہ پیار کی سرحد ہے
یہ تیج کا میلا ہے
بھیڑ قیامت کی
دل پھر بھی اکیلا ہے
سسرال چلی سجنی
میکے کی سب باتیں
اب بھول گئی سجنی
کھوٹے ہیں کہ سچے ہیں
ماں کے لیے بیٹے
سب ایک ہی جیسے ہیں
تنہا نہیں آیا ہوں
گاؤں کی یادوں کو
میں شہر میں لایا ہوں
پربت سے اتر ماہی
گود زمیں کی اب
تخلیق سے بھر ماہی
کیا درد جگاتا ہے
دور کوئی ماہی
’الغوزہ‘ بچاتا ہے
دل ایسا مجیرا ہے
درد کے ہاتھوں سے
تنہائی میں بجتا ہے
کیا جھونکے ہوا کے ہیں
بانس کے جنگل میں
سنگیت بجاتے ہیں
تو درد جگاتا چل
ماہیے چاہت کے
’دل تارے‘ پہ گاتا چل
کچھ میری سنو بھائی
گھر میں محبت سے
مل جل کے رہو بھائی
چاہت کی نشانی ہے
عمر کے بستے میں
اک یاد پرانی ہے
یہ پریم کے بوٹے ہیں
کوئی بھی موسم ہو
بس کھلتے ہی رہتے ہیں
الفاظ میں ڈھالیں گے
تیری جدائی کو
ہم گیت بنا لیں گے
کس درد کا پھیرا ہے
گھر میں دئیے روشن
اور دل میں اندھیرا ہے
عادت ہے عجیب اس کی
وار بھی کرتا ہے
کرتا ہے حفاظت بھی
مجھ کو تو یہ الجھن ہے
جاں کا محاٖفظ ہی
اب جان کا دشمن ہے
طاقوں میں سجا لینا
چہرۂ ہستی کو
آئینہ بنا لینا
وہ آئے ہیں پھیروں پر
چاند چمکتا ہے
کھیتوں کی منڈیروں پر
وہ آئیں گے ٹیلوں پر
گیت محبت کے
ہم گائیں گے ٹیلوں پر
اس سال تو آئیں گے
تیج کے میلے میں
ہم ڈھول بجائیں گے
خوشبو ہے نہ پایل ہے
رات کٹے کیسے
تنہائی کا جنگل ہے
نغمہ ہے نہ جگنو ہے
خواب کی وادی میں
تنہائی کا آہو ہے
جھنڈے یونہی گاڑیں گے
جا کے اکھاڑے میں
دشمن کو پچھاڑیں گے