ستیہ پال آنند(کینڈا)
مایوسی کے عالم میں خلق ہوئی چار نظمیں
تجا ہوا، بیکار، اکارت
پوچھو مت یہ کیسا خلا ہے
ہم جس میں محبوس کھڑے ہیں
وقت کی ریت گھڑی سے کیسے
ذرّہ ذرّہ گرتے پل چھن
ہم کو اکارت جان کے ، یارو
تجا ہوا،بوسیدہ کپڑے کی اترن سا
چھوڑ گئے ہیں
رسّی، جس سے
عمر گریزاں کے موسم، اجلے کپڑوں سے
ٹنگے ہوئے جان بخش فضامیں جھوم رہے تھے
ادھڑی ادھڑی، مُڑی تُڑی سی
گدلی سرد ہوا میں پھانسی کے پھندے سی
جھول رہی ہے
کل کی سندر کنیائیں، جو
اپنی کلائیوں میں پھولوں کی قوس قزح کے گجرے پہنے
گلشن گلشن گھوم رہی تھیں
اب بوڑھی بیوائیں ہیں ، جو
ٹُنڈ مُنڈ پیڑوں سی سوکھی ۔۔ بال کھُلے
گاڑھی مٹّی کی رنگت جیسے
رات رات بھر جاگ کے سینہ کوبی کرتیں
راکھ پہ بیٹھی سسک رہی ہیں
جلتے الاؤ بُجھ سے گئے ہیں
کہر آلود فضا کی گدلی تاریکی میں
تارہ، جگنو، کچھ بھی نہیں ہے!
وقت کی ریت گھڑی سے کیسے
گرتے پل چھن
اے ہم عصر ساتھیو، ہم کو
تجا ہوا،بیکار، اکارت چھوڑ گئے ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی رفتہ ، نہ آئندہ
یہ کیسا آج ہے جس میں
کسی فردا کے سورج کے نکلنے کی کوئی خواہش نہیں ہوتی
کسی کل کے افق میں ڈوب جانے کا کوئی غم بھی نہیں ہوتا؍عجب بے رنگ سا ماحول ہے دل کے احاطے کا
جہاں بے اعتنائی، بے حسی کی راکھ اڑتی ہے
نہ قدموں کے نشان باقی ہیں آنے جانے والوں کے
نہ کچھ امید ہے کوئی کبھی لوٹے گا اس گھر میں
نہ کچھ آسودگی، اقبال مندی کی طمانیت
نہ کچھ آزردگی، فکر و تردد کی اذّیت ہے!
کوئی کل ہے ، نہ فردا ہے
کوئی رفتہ، نہ آئندہ
فقط نامعتبر اک لمحۂ موجود، جگنو سا
مری مٹھی میں رہ رہ کر تڑپتا
مرتا جاتا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون ہیں ہم تم؟
کون ہیں ہم تم؟
ہم تم ہیں دیوار پہ لکھے نام
جنہیں لکھنے والے نے
خشت خشت تحریر کیا تھا
لیکن آتی جاتی صدیاں
وہ ابجد ہی بھول گئی ہیں
جس میں ہم تم لکھے گئے تھے!
آنے والی صدیاں شاید
یہ دیوار نوشتہ پڑھ سکنے کی خاطر
بھولا بسرا ابجد پھر سے از بر کر لیں
نام پڑھے بھی جائیں، لیکن
نام نام ہیں
شخص نہیں ہیں
نام میں آخر کیا رکھا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمیں حنوط کرو
ہم جیتے جی فرعونوں جیسے افضل تھے
برتر، اعلےٰ، سب سے اونچے
ہم مخدوم، مکّرم، مقبول و ماجد
سب کے آقا تھے!
آج ہماری ہار ہوئی ہے
ہم خاقانی
اپنی خفّت میں لپٹے بے حرمت لاشے
گلیوں، صحنوں، دالانوں میں پڑے ہوئے ہیں
شاید ایک عجائب گھر میں
رکھے نمونوں جیسے ہم تم
آنے والی نسلوں کی
تدریس و آموزش کا ایک وسیلہ بن کر
اپنے ماضی کی فوقیت قائم کر لیں
فاتح لوگو
ہمیں حنوط کرو، لاشیں لافانی کر دو!!