پروین شیر(کینیڈا)
اب کہاں جاؤں گی؟
منہ اندھیرے جو گھر سے نکلتی تھی میں
سارا دن جنگلوں میں بھٹکتی ہوئی
میرے پاؤں تپکتے ہوئے
آبلوں میں پروئے،تھکے ماندے چلتے ہی رہتے تھے
دن بھر جھلستی ہوئی دھوپ میں
دن ڈھلے گھر کی دہلیز پر؍پاؤں رکھتی تھی،تو
ایسے لگتا تھا جیسے یہ اک دن نہ تھا؍پورا اک سال تھا!
ٹوٹا پھوٹا ہوا میر بوسیدہ گھر؍میری جائے اماں
جس کی پارینہ دیواروں پر سر ٹکائے ہوئے
چین کا سانس لیتی تھی تو
سارے دن کی تھکن بھول جاتی تھی میں
آج جب پو پھٹے؍گھر سے نکلی انہیں جنگلوں کی طرف
راستے میں ہوا نے،درختوں نے اور طائروں نے
بتایامجھے؍میری جائے اماں
سخت موسم کے جوکھم میں میرا سہارا،وہ پارینہ گھر
ڈھے گیا؍شام ڈھلنے کو ہے؍رات کی دل شکن تیرگی
تلخ ،سنگیں حقائق کازہرِ ہلاہل لیے
میری جانب کسی افعی کی طرح
آرہی ہے لگاتار بڑھتی ہوئی
بے اماں میں اکیلی کھڑی دشت میں
سوچتی ہوں کہ اب؍ننگے سر،ننگے پاؤں کہاں جاؤں گی