احمد منظور
گذرتے جا رہے ہیں
ہم اس چکنی پھسلتی رہگذر پر
کہ جس کے بائیں جانب
اُفُق کو چومتا، دھرتی بدن ڈھکتا، اجالوں کی طرح پھیلا
پہاڑوں کا عجب سا سلسلہ ہے
ہماری رہگذر کے دائیں جانب
ہرا جنگل درختوں سے اٹا ہے
اور اس جنگل سے ہوکر
کئی چھوٹی بڑی پگڈنڈیاں بستی کو جاتی ہیں
یہ وہ بستی ہے جس کا دل عبادت گاہ کے اونچے مناروں میں دھڑکتا ہے
عبادت گاہ کے میناروگنبد سے صدائیں آرہی ہیں
ارے نادان انسانوں بتاؤ حشر کے دن
ندی،جنگل،گھروندے،ریت،چٹانیں،
ستارے،چاند،سیارے،ہوائیں،بارشیں،آکاش،دھرتی
تم اپنے رب کی کتنی نعمتیں جھٹلاسکوگے؟
ہم اپنے رب کی ساری نعمتوں کے معترف ہیں
مگر ہم ہیں کہ اپنے سَرنفی سُر میں ہلاتے بڑھ رہے ہیں
اسی چکنی پھسلتی رہگذر پرپھسلتے جارہے ہیں
کہ جس کے دونوں لب پر
کروندے کی کنواری جھاڑیاں کثرت سے ملتی ہیں
کروندے کی کنواری جھاڑیوں کی آرزو ہے
کسی جانب سے کوئی شاہزادہ اپنے گھوڑے پر سوار آئے
اور ان کے جسم سے کچے پھلوں کو توڑ کر چکھ لے
انہیں آسودگی دے
اگر چاہیں تو ہم وہ شاہزادے بن بھی سکتے ہیں
مگر ہم ہیں کہ اپنے سَر نفی سُر میں ہلاتے بڑھ رہے ہیں
اسی چکنی پھسلتی رہگذر پر
گذرتے جارہے ہیں
ہماری پشت پرشاید کروندے کی کنواری جھاڑیوں کی التجاؤں اور عبادت گاہ کے مینارو گنبد کی صداؤں نے
کوئی سازش رچی ہے
تعاقب میں ہمارے چل پڑی ہیں
ہمارے کان میں اک تیسری آواز آتی ہے
ارے نادان انسانو!
ہمیں آسودگی دو
بتاؤ حشر کے دن
ندی ،جنگل،گھروندے،ریت،چٹانیں،ہمارا دھوپ میں جلتا بدن
جھٹلاسکوگے؟
لا سکو گے؟؟