طاہر عدیم(جرمنی)
کُھل نہ پایا حال
ہجر کے تپتے صحرا میں جب
اوڑھی بھٹکے لمحوں نے
خوشیوں کے ریشم سے سلجھی ؍ وصل اُگاتی شال
صدیوں سے رگ رگ میں اُلجھے
ٹوٹے سب جنجال
کٹتا چہرہ، پھٹتی آنکھیں، ؍ ہجرزدہ سے گال
اپنے باپ کو ملنے جب وہ
پار سمندر سے آیا تھا
کالے کر کے بال
کُھل نہ پایا حال
باپ کے چہرے پر تھی رقصاں
خوشیوں کی ہرتال
(جھکی جھکی سی چال)
لیکن آنکھوں میں پھیلا تھا
سوچوں کا اِک جال
کُھل نہ پایا حال
اپنی اپنی ’’ایکٹنگ‘‘ میں تھے
دونوں ہی پامال
دونوں ہی کے دوش دھرا تھا
ہجرت کا پاتال
کُھل نہ پایا حال۔۔۔!