انور سدید(لاہور)
(1)
دسمبر اس برس آیا
تو اس نے آٹھویں عشرے
کے دروازے پہ دستک دی
یہ دروازہ کھلا
تو سامنے اس کے کھڑا تھا
ایک بندہ ۔۔ سال خوردہ۔۔ہار دیرینہ دسمبر کا
جو ماہ و سال کی لمبی مسافت میں
ہمیشہ گردش دوراں میں
اس کے ساتھ رہتا تھا
تھپک کر پیٹھ اس کی
حوصلہ اس کا بڑھایا تھا
دسمبر نیچے گر پڑتا
تو وہ اس کو اٹھاتا تھا
صعوبت کے زمانے میں
٭٭٭
(2)
دسمبر اس برس آیا
تو اس کا سال خوردہ ہار دیرینہ
زمیں پر چاروں شانے چِت پڑا تھا
اس کو تکتا تھا
بڑی پژ مردہ آنکھوں سے
بہت ہی ملتجی لہجے میں کہتا تھا
دسمبر! تھام لو مجھ کو
اٹھاؤ مجھ کو فرش خاک سے
پہلو میں رکھا ہے مرے
عمرِ گزشتہ کا اثاثہ
ایک گٹھڑی میں
یہ سب لے لو
مجھے بس چار دن کی زندگی دے دو
کہ میں دواک ضروری کام کر لوں
اپنے ہاتھوں۔۔ اپنی مرضی سے
(4 دسمبر میری پیدائش کا دن ہے ۔ اس برس میں نے 79 واں سال عبور کیا ہے۔) انور سدید