جان عالم(مانسہرہ)
ایک لڑکی کی آڈیو جو اس کے باپ کی موت ثابت ہوئی۔لڑکی کا باپ پولیس والا تھا۔
S=vit+1/2at2
سوال نمبر 1کیا میں سہیلی کے گھر میں ہوں؟
لیڈی ڈیانہ سے ملاقات:5.30بجے شام
اُس نے میرے دفتر کادروازہ کھولا اور بغیر کچھ کہے کاغذ کا ایک پرزہ مجھے دے کر نکل گیا۔یہ اُس کا معمول تھا۔ اُس کی بے ربط باتوں میں بھی مجھے ہمیشہ ایک ربط ملاہے ۔مجھے ہمیشہ اصرار رہتا اورمیں اپنے دوست ارشد جان سے بحث بھی کیاکرتا کہ وہ پاگل نہیں ہے،وہ جو کہتا ہے ٹھیک کہتاہے بس اس کی باتوں کو ہمارا پاگل پن ٹھیک سے سمجھ نہیں پاتا، ہم اپنی دماغی صحت کا الزام اُسے کیوں دیں۔ اس دن بھی جب اُس نے ایک بے ربط پرزہ مجھے تھمایا تو اُسے پڑھتے ہوئے ارشد جان نے تقریباً چیختے ہوئے مجھے کہاتھا؛
’’وہ پاگل ہے یار․․․پاگل ہے۔آخر تم کیوں نہیں سمجھ رہے؟ ‘‘ارشد جان اپنی دانست میں ٹھیک ہی کہتا ہوگا ۔اس لئے کہ اُس نے میرے ساتھ اُس لڑکے کو کوڑے کے ڈھیر سے ہڈیاں چنتے اور کھاتے دیکھا تھا۔
’’وہ پاگل نہیں ہے ۔اور کوڑے کے ڈھیر سے کچھ اٹھا کر کھاناپاگل پن کیوں ہے؟۔اس سے تواُس کے ٹھیک ہونے کا پتا چلتا ہے ․․․․․اُس کے اندر زندگی جینے کی آرزو ہے اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کر رہا ہے۔وہ اضطراری کیفیت سے گزر رہا ہے ․․․․وہ کچھ بھی کھا سکتا ہے ۔ اس میں پاگل پن کی کیا بات ہے؟‘‘میں نے اُس دن بھی اس کی صفائی پیش کی تھی۔
میں پاگلوں پر کسی ماہرِ نفسیات کی طرح ریسرچ تو نہیں کر سکتا لیکن مجھے یہ بھی پتا ہے کہ نفسیات کے ماہرین بھی پاگلوں پر آج تک کچھ بھی تحقیق نہیں کر پائے۔اور یہ اس لئے کہ پاگل کی کیفیت کا ایک نارمل انسان اندازہ لگا ہی نہیں سکتا۔کیفیات کا اندازہ لگا کون سکتا ہے؟اور اس لڑکے کو تو میں پاگل مان ہی نہیں سکتا ۔اتنی ہوش مند باتیں کوئی پاگل کیسے کر سکتا ہے؟
میرے پاس اُس کی بہت سی یاداشتیں جمع ہو چکی ہیں۔اور میں اُس کی تحریروں سے اُسے سمجھنے کی کوشش میں لگا ہوں۔
ایک دن وہ مجھے میرے دفتر کے دروازے پر ملا۔میں نے پوچھا ؛
’’ کچھ لکھا تم نے میرے لئے ؟‘‘
’’میرے پاس کاغذ نہیں ہے۔‘‘اُس نے سنجیدگی سے عذر پیش کیاتو میں اُسے اپنے آفس میں لے آیا ؛
’’لو یہ کاغذ اور لکھو۔‘‘
’’کیا لکھوں ؟پرچہ بنانا ہے کیا ؟کون سی کلاس کے لئے؟‘‘اُس نے سنجیدگی سے دو تین سوالات داغ دئیے۔اور میں نے بھی کسی حیرت کا اظہار کرنے کی بجائے اُسے کہا؛
’’ہاں!پرچہ سائنس کا ہے اور دسویں جماعت کے لئے بنانا ہے۔‘‘
اُس نے کاغذ قلم سنبھالا اور پورے انہماک سے پرچہ بنانے لگا۔میں سگریٹ پھونکتا رہا اور وہ کسی اپنے تعلیمی نصاب کے معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے پرچہ بنانے لگا۔دس منٹ بعد اُس نے اُسی سنجیدگی سے اٹھ کر میز پر کاغذ قلم رکھا اور چلا گیا۔
میں اُس کی خوبصورت ہینڈ رائیٹنگ میں اس عجیب سے پرچے کو پڑھتے ہوئے حیرت میں گم ہو تا چلا گیا۔
سوال نمبر 1.انسانی جسم میں بنی نالیوں میں بہنے والے رنگوں کی تعداد بتائیے؟
یہ کیا پوچھ رہا ہے ۔یہ کن رنگوں کی بات کر رہا ہے ․․․․؟
یہ کن استعاروں اور اور کن علامتوں سے کچھ کہناچاہتا ہے۔
یہ رنگ ،وہ رنگ تو نہیں جو ہمیں نسلوں ،قبیلوں اور قوموں میں بانٹ دیتے ہیں ؟
کیا ہمارے جسم میں بچھی نالیوں کے جال میں رنگ بہتے ہیں؟
دوسرے سوال نے مجھے اپنے جسم میں بہتے رنگوں سے باہر اچھال دیا؛
سوال نمبر 2انسانی جسم کے خلیوں کی تعداد بتائیے؟
میرے سامنے ریاضی کی ساری گنتیاں ان گنت حیرتوں میں گم ہو گئیں۔
کیلکولیٹر ٹوٹنے لگیں اور کمپیوٹر ہینگ ہوگئے۔ اُف․․․․․․․اتنا مشکل پرچہ․․․․․․․․․․․؟
٭٭٭
میں جب اُس کی معقول باتوں سے ڈر نے لگتا تو اُس کی بے ربط باتوں کو پڑھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتا کہ شایدیہ بندہ سچ مچ کا پاگل ہو۔
میڈیکل سپرنٹنڈنٹ صاحب نے کانسٹبل اسپیشل برانچ کی اسامی دی تھی۔
پائلٹ آفیسر ۔طیارہ شکن رجمنٹ ۔
علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے ٹاپ گریڈ لیا تھا۔
شناختی کارڈ کی رجسٹریشن کے بعد ’’ووٹ‘‘ رجسٹریشن آفس اسلام آباد گئے تھے۔
کمرہ نمبر 120،فائل نمبر 154922
ویزا سیکشن۔1 4agst 1988
یہ کچھ کہنا چاہتا ہے ۔کہیں پائلٹ بننے کے خواب دیکھے ہوں گے اس نے۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ،شناختی کارڈ بنانے ․․․․․․اور ․․․اور ویزے کے لئے دوڑ دھوپ میں کہیں تھک کر پیچھے نہ رہ گیا ہو؟اس کے خواب کیا ہیں ؟پتا لگانا چاہیے۔اس کا بچپن کہاں گزرا․․․․ماں ․․․باپ،بہن بھائی ․․․․․؟
سگریٹ کی ڈبیہ کی پشت پر لکھی اُس کی ایک تحریر میرے سامنے گھوم گئی۔
’’سر کیا میں انسانوں کیطرح بات کرتا ہوں؟‘‘
’’سر کیا میں گدھا ہوں؟‘‘
’’نہیں بچہ․․․․!!‘‘
’’سر مجھے مس اُلو کا پٹھا کہتی ہے۔‘‘
’’مس اُس دن بہت حسین لگ رہی تھی۔‘‘
شاید اسے فیس ادا نہ کر نے پر ٹیچر سے ڈانٹ ملی ہو گی۔پھر اسے سکول سے نکال دیاگیا ہو گا۔باپ نے سرکاری سکول میں ڈالا ہو گا اور یہ دو سکولوں کے درمیان کہیں بھٹک گیا ہو گا۔لیکن․․․․․․․․․․․․․․لیکن اس نے تو اوپن یونیورسٹی سے ٹاپ گریڈ لیاہے۔بڑی محنت کی ہو گی اُس نے۔
میرے سامنے اس کے اَن دیکھے گھر کا منظر کھلنے لگا:
’’ماں !ایک بندے کے پاس ویزے آئے ہیں ۔دوبئی کے ۔ستر ہزار مانگ رہے ہیں ۔‘‘اُس نے بیروزگاری سے تنگ آ کر خوشحالی کا خواب اپنی ماں کو دکھایا ہوگا۔
’’ستر روپے ہیں تیرے پاس؟‘‘ماں نے اُسے خواب سے جگا دیا ہوگا۔’’سات بہنیں ہیں تیری ․․․․․․سات۔‘‘اور تُو چلا جائے گا تو ادھر کون ہو گا؟‘‘
سوال نمبر 9محبت کی دیوار اور محلے کی دیوار میں کیا فرق ہے۔نیز محلِ محبت کیا ہوتا ہے؟
اسے اپنی پڑوسن سے پیار ہوا ہوگا۔محلِ محبت ․․․․․․․․․․․؟؟بے محل محبت ․․․کیوں کرتی وہ لڑکی․․․․․․․غریب ․․․بیروزگار لڑکے سے محبت؟اُس لڑکی نے اسے ٹھکرا دیا ہوگا․․․․․․․․․․!!
سوال نمبر 10بال کٹوانے سے پہلے غریبی ہوتی ہے یا بال کٹوانے کے بعد؟
یہ اپنے پراگندہ بالوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے یا بچے کے عقیقے کی بات کر رہا ہے۔نہیں ․․․․․․․․․․․․․․عرفات سے واپسی کے بعد کی بات کر رہا ہے۔قربانی کے بعد بال کٹوانے کا کہہ رہاہو گا۔کتنا غریب ہو جاتا ہے انسان ․․․․․․․․․․․․۔اُف ․․․․․․․اس کا ہر سوال اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟
سوال نمبر 11انسان اور کتے کے بولنے کی رفتار بتائیے۔
’’بھاڑ میں جاؤ․․․․․․․․․!!تم خود بھی پاگل ہو۔‘‘ارشد جان مجھے ڈانٹتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا۔
میں اکیلے اُس کا پرچہ حل کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
٭٭٭
چار مہینے گزر گئے،وہ نہیں آیا ۔میں اُس کا انتظار کرتا رہا۔
مجھے تو اس نے اپنا نام بھی نہیں بتایا تھا۔․․․․․․․․․
․․․․․․․․․․․․․․․پتا نہیں اُسے بھی اپنانام آتاہوگا یا نہیں۔
٭٭٭
اور ایک دن اچانک وہ آگیا۔
اُس کے تیور بدلے ہوئے تھے۔اُس کی آنکھوں میں وحشت تھی اور لہجے میں غصہ۔
’’کاغذ․․․․․!!‘‘اُس نے غصے میں کہا تو میں نے کچھ کہنے کی بجائے اُسے کاغذ دے دیا۔
وہ بغیر سوچے لکھے جا رہا تھا۔میں حیران ہو رہا تھا کہ یہ سوچے بغیر کیسے لکھ رہا ہے۔
مسلح افواج کے سربراہ کے نام
بدکردار خاندان میں گینگ ریپ کے ذریعے گینگ ریپ کے ساتھ پھنس گیا ہوں ۔
1984سے میری مزدوری کا ایک پیسہ بھی مجھے نہیں ملا۔ویزا پاسپورٹ اُن کے پاس ہے۔
مجھے مانسہرہ ہیلی پیڈ سے روس میں اُتار دیا جائے۔کسی سے اپنے حمل کا کیس نہیں لڑوں گانہ خون کا عطیہ دوں گا۔
ہجرت سرٹیفکٹ درخواست کے ساتھ منسلک ہے۔173کنٹری کورٹ․․․․․․․․․․․․․․․
’’ٹھہرو․․․․!!!میں نے اُس کا قلم روک لیا۔
’’ٹھہرو․․․․․․․․․․․․․․․․․․یہ سب کیا ہے؟دیکھو !مجھے پتا ہے تم پاگل نہیں ہو ؟کون ہوتم ․․․․․․․․؟
تمہارا نام․․․․․؟‘‘میں نے اُس سے پوری سنجیدگی سے سوال کیا۔
’’میں ․․․․․․․․․․میں جوتا ہوں۔‘‘
میں نے کسی حیرت کا اظہار نہ کرتے ہوئے اُس سے پھر پوچھا ۔
’’تم کہا ں ہوتے ہو؟‘‘
اُس نے اپنے سر کی طرف اشارہ کیا تھا ؛
’’یہاں․․․․!‘‘
میں اس کے ننگے پیروں کی طرف دیکھنے لگا ۔شایدیہ اپنی غربت کاکہہ رہا ہے۔میں نے پوچھا ؛
’’غریبی کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’یہ جوتے کی ابتداء اور ضرورت کا سفر ہوتی ہے۔۔۔۔۔یہ حلال کی مزدوری کرنا سکھاتی ہے۔‘‘
’’تو تمہارے پیر کیوں ننگے ہیں؟‘‘میں اُسے کھرچنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’میں خود جوتا ہوں۔․․․․․․․․․!!!
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․کیا تم مجھے پہنو گے․․․․․؟‘‘
میں نے اسے بچانے کی ایک مخلصانہ کوشش میں کہا؛
’’ہاں․․․․․․․․․!!‘‘
اوروہ خوشی میں مجھ سے لپٹ گیا
٭
میں نے ارشد جان کے لئے کاغذ کے پرزوں پر اتنا کچھ لکھ رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پتا نہیں وہ کیوں نہیں آتا۔
٭٭٭
اردو افسانے کا حلیہ بہت حد تک بدل چکا ہے لیکن اس کے مانوس تر خدو خال اس حلیے میں بھی بے اختیار پریم چند کی یاد دلاتے ہیں۔بیٹے نے اگر باپ دادا کی پگڑی کو ایک طرف ڈال دیا اور ننگے سر گھومنے پھرنے کو ترجیح دینے لگا تو کیا ہوا؟اہم بات تو یہ ہے کہ وہ اپنے سر کو دھڑ سے جدا کرکے وہاں کوئی نیا سر جوڑنے سے کیوں قاصر ہے!
زندگی کے نئے سماجیاتی باب میں بھی افسانہ اگر اپنی پگڑی سنبھالنے کا منظر نامہ پیش کیے چلا جاتا تو یقیناَ ایک مضحکہ خیز صورت پیدا ہو جاتی،تاہم اپنی روایت سے یکسر منکر ہو کر وہ اپنی الگ شناخت کی صورت تو کیا کر پاتا،اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو لیتا۔کوئی بالغ زندگی ایک دم وجود میں نہیں آجاتی بلکہ ایک پوری روایت کی تربیت پا کر اونچی ہوتی ہے اور اونچی ہو کر اسی روایت کو نئے سیاق و سباق میں دریافت کرکے اس کی توسیع کے اسباب کرتی ہے۔
(جوگندر پال کے مضمون جدید افسانے کا پیش رو۔۔پریم چند سے اقتباس)